جمعہ, 22 نومبر 2024
×

Warning

JUser: :_load: Unable to load user with ID: 46


پاکستان میں تین ہوائی اڈوں پر ایبولا کے خطرے سے نمٹنے کے مراکز قائم

ایمز ٹی وی (اسلام آباد) پاکستان کی وزیر مملکت برائے ’قومی ہیلتھ سروسز‘ سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہ ملک کے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر بیرون ملک سے آنے والے ممکنہ طور پر ایبولا وائرس سے متاثرہ افراد کی تشخیص کے لیے خصوصی انتظامات کر لیے گئے ہیں۔

’’عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجویز ہے کہ ہر مسافر کی اسکرینگ ضروری نہیں۔ ہم نے اُن لوگوں کو اسکرین کرنا ہے جو گنی، سیرا لیون اور لائبریا سے آ رہے ہیں۔‘‘ سائرہ افضل تارڑ

واضح رہے کہ افریقہ کے تین ممالک گنی، لائبیریا اور سیرا لیون ایبولا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جہاں وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی کوششیں جاری ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ایسے مہلک وائرس کی سرحد تو نہیں ہوتی اس لیے پاکستان ہر ممکن دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کوششیں جاری رکھے ہوئے۔

’’ہوائی اڈوں کے علاوہ، اسپتالوں کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے عملے کی تربیت شروع کر دی گئی ہے۔ جو آلات چاہیئں وہ ہم نے تمام صوبائی حکومتوں کو فراہم کیے ہیں۔‘‘

سائر افضل تارڑ کا کہنا تھا کہ معاشرے میں زیادہ آگاہی نا ہونے کی وجہ سے لوگ متعلقہ حکام سے تعاون نہیں کرتے کیوں کہ متاثرہ شخص کو تنہا رکھنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں وفاقی حکومت نے ایبولا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک اعلٰی سطحی کمیٹی قائم کی اور تمام صوبوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات کریں۔

ایبولا وائرس سے اب تک لگ بھگ پانچ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ متاثرہ افراد کی تشخیص لائبیریا میں ہوئی ہے جب کہ دیگر شدید متاثرہ ممالک میں گنی اور سیرا لیون شامل ہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستانی فوج کے دستے کئی افریقی ممالک بشمول لائبیریا میں بھی تعینات ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ مسلح افواج نے بھی اس سلسلے میں خصوصی انتظامات کیے ہیں۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایبولا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک سے براہ راست پروازیں پاکستان نہیں آتیں اس لیے جن ممالک سے ہو کر یہ مسافر یہاں پہنچتے ہیں وہاں سے بھی وہ اسکرینگ کے عمل سے ہو کر گزرتے ہیں۔

اگرچہ سرکاری طور یہ کہا گیا کہ تاحال پاکستان میں ایبولا وائرس سے کسی بھی شخص کے متاثر ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود حال ہی میں ملک میں اس سلسلے میں آگاہی اشتہاری مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment