میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا
ایمز ٹی وی (پشا ور)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ میں اکیلانظام ٹھیک نہیں کرسکتا،حکومت کی ترجیح عدلیہ نہیں توذمہ دار نہیں ، تمام جج سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، ججزکاکام سچ اورجھوٹ کا قانون کے مطابق فیصلہ کرناہے۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ججز اور وکلا سے ملاقات کیلئے پشاورہائیکورٹ پہنچے، جسٹس ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف انصاف ہے، تول کر دیا جانا چاہیے، سپریم کورٹ اورہائیکورٹس میں نیک نیت والےلوگ بیٹھی ہیں، انصاف کرنا ججز کی ذمہ داری ہے۔میں اکیلے نظام ٹھیک نہیں کرسکتا نہ ہی کبھی نظام ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس دوست محمدکی ہرخواہش بطورچیف جسٹس پوری کی، میں نے پوچھا کس دن آپ فل کورٹ ریفرنس لیناچاہیں گے، جسٹس دوست محمد کیلئےہماری پوری ٹیم تحفہ خرید کرلائی، تحفے پر پوری ٹیم کے نام لکھے گئے ہیں، جسٹس دوست محمد سے پوچھ کر ان کی اہلیہ کیلئے شال لی، میں وضاحت نہیں دےرہا،صرف بار کو متنبہ کررہاہوں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جسٹس دوست محمد کی ریٹائرمنٹ سے قبل انہیں بار اور کورٹ کی طرف سےریفرنس دینے کا منصوبہ بنایاتھا لیکن عین وقت پرجسٹس دوست محمد نے ذاتی وجوہ کی بنا پرریفرنس لینے سے انکار کردیا، آج بھی جسٹس دوست محمد کو ریفرنس دینے کیلئے تیارہوں۔تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ جسٹس دوست محمد نے کہا بیٹی کی منگنی ہے، ریفرنس کیلئے تقریرنہیں لکھ سکتا، میں نے جسٹس دوست محمد کو تقریر تیار کرنے کی پیش کش کی تھی، جسٹس دوست محمد نے کہا مجبوری ہے، فل کورٹ ریفرنس نہیں لے سکتا۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ میں نےاپناکام ذمہ داری کےساتھ شروع کیا، صدق دل سے معافی مانگنے پرمعاف کرناچاہیے، میں بار کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں ایک ہی جسم کے دو حصے ہیں، علم نہیں کہ دوست محمد نے ریفرنس کیوں قبول نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے جسٹس دوست محمد کو ریفرنس نہ دینے کے معاملے پر کہا کہ اگر بارز سمجھتی ہے کہ غلطی ہوئی تو اس کے ازالےکیلئےتیارہوں، کبھی ایسانہیں ہوا کہ فل ریفرنس کیلئے تقریر پہلے دکھانا کا کہا ہو۔ججزکاکام سچ اورجھوٹ کاقانون کے مطابق فیصلہ کرناہے۔ان کا کہنا تھا کہ پشتون میرے بھائی ہیں،میری جان ہیں، 225 پٹیشن تھیں،10،10روز لگاکر نمٹائیں،کبھی یہ نہیں کیاکہ بات سنی نہیں اور فیصلہ دےدیا، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، بہت سےفیصلے قانون کےمطابق نہیں ہورہے، ہائیکورٹ کے ججز پر اپنی اور ڈسٹرکٹ ججزکی ذمہ داری ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 1861 اور1906کا قانون نہیں بدلا تو ذمہ دارسپریم کورٹ نہیں، اگرحکومت کی کم ترجیح عدلیہ ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں، تمام جج سمجھ لیں تمام ذمہ داری ہم نے لینی ہے، ہمارےجہادمیں بارزکوبھی برابر کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کررہے،ایک ٹیم بن کرکام کرناہوگا، عدلیہ سے وابستہ تمام لوگ ایک ہیں،مل کرکام کرناہوگا، اسپتال میں لواحقین اور مریضوں کوتکلیف میں دیکھ کردکھ ہوا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میں اکیلے نظام ٹھیک نہیں کرسکتا نہ ہی کبھی نظام ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا، نظام ٹھیک کرنے کیلئے قانون میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہونگی اور میں قانون بنانے والا نہیں بلکہ عملدرآمد کرانے والا ہوں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نظام میں تبدیلی قانون کےساتھ آتی ہے،میں قانون بنانےوالانہیں، قانون کےنفاذ کیلئے جوچیزیں دی گئی ہیں انہیں پر انحصار کرنا ہوگا، کسی نے آج تک سوچاکہ قوانین میں تبدیلی کرنی چاہیے؟ کیسے زندگی، جمع پونجی کا انحصار 2افراد کی گواہی پر کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ججزکاکام سچ اورجھوٹ کاقانون کے مطابق فیصلہ کرناہے، تجویزدیں اسی نظام کےتحت مقدمات کو جلد کیسے نمٹایا جاسکتاہے؟