جمعرات, 21 نومبر 2024


بچوں کےحقوق سےمتعلق قومی کمیشن کاطلبہ پرتشددکانوٹس

پشاور: بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن کی چیئرپرسن افشاں تحسین نےپشاورکے ماڈل اسکول میں طلبہ پر تشددکانوٹس لے لیا۔

واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قومی کمیشن کی چیئرپرسن افشاں تحسین نے کہا ہے کہ ، "ہم اس واقعے کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ کا قانون جسمانی سزا کا احاطہ کرتا ہے اور اس معاملے میں متعلقہ پولیس کے ساتھ فالو اپ کیا جائے گا۔"

تحسین نے مزید کہا کہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے قانون کا وجود اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے لیکن "والدین کے لیے ایسے مسائل کے حوالے سے آگاہی بھی بہت ضروری ہے"۔

این سی آر سی کے چیئرپرسن نے کہا، "اسکولوں میں بچوں کے تحفظ کی کمیٹیوں کو یقینی بنایا جانا چاہیے اور والدین کو بھی یہ مطالبہ کرنا چاہیے۔"

انہوں نے اس بات پر اعتراف کیاکہ "کے پی میں جسمانی سزا سے متعلق کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے"۔
انہوں نے اس معاملے پر ٹھوس قانون سازی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، "این سی آر سی نے ماضی میں دو بار حکومت کے متعلقہ محکمے کو لکھا ہے۔ ہم اس معاملے پر دوبارہ پیروی کریں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ کے پی میں ایسے واقعات کے خلاف کارروائی صرف شکایت کنندگان جیسے والدین یا متعلقہ سرکاری محکمے بشمول کمیشن بچوں کے تحفظ کے قانون میں مذکور جسمانی سزا کے پہلو کی بنیاد پر کر سکتے ہیں۔

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے وکیل اور انیشی ایٹر ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے صدر رانا آصف حبیب نے کے پی کے بچوں کے تحفظ کے قانون میں جسمانی سزا کی سرسری کوریج کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے کہا، "سندھ واحد صوبہ تھا جس نے 2016 میں جسمانی سزا کے لیے ممانعت کا قانون متعارف کرایا، جس کے بعد آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور وفاقی سطح پر قانون سازی کی گئی۔"

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment