ایمزٹی وی(لاہور)لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ موقف تھا کہ اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ وہ صاف اور شفاف تحقیقات کرے لیکن سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے پر دھمکیاں دی گئیں اور عوام دل گرفت ہیں کہ مارے اداروں کو دباﺅ میں لایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی ایک بھی نکات ایسا نہیں جس میں میاں نواز شریف کا ذکر ہو بلکہ 7 سوالات میاں محمد شریف کے کاروبار سے متعلق ہیں اور 4 سوال حسن اور حسین نواز کے کاروبار سے متعلق ہیں اور نواز شریف، مریم نواز شریف، کیپٹن (ر) صفدر اور اسحاق ڈار سے متعلق اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔
رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ جو انسان اپنا جواب دینے کیلئے دنیا میں موجود نہ ہو اس کیلئے قانون بڑا واضح ہے البتہ جو موجود ہیں انہیں تمام شہادتیں پیش کرنی چاہئیں اور کی بھی گئی ہیں جبکہ نواز شریف کے بچوں سے جو سوالات پوچھے گئے ہیں وہ ان کا جواب دیں گے۔
وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہیں اور عمران خان نے بھی پوری قوم سے ایک بار نہیں درجنوں بار یہ کہا ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو گا اسے من و عن تسلیم کیا جائے گا لیکن اب عمران خان، اس کیساتھ ایک شیطان اور ایک مکار مولوی سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک حصے کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، وہ اس کو رد کر رہے ہیں، یہ توہین عدالت ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے ۔ عمران خان ایک اختلافی نوٹ کو بہانہ بنا کر اپنی بات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اختلافی نوٹ فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے دیا ہے، اختلافی نوٹ رائے ہو سکتی ہے اور اس رائے کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا، نہ وہ قانون اور آئین کی نظر میں فیصلہ ہوتا ہے۔ ” یہ نہیں کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو ۔“
انہوں نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ بہترین جج اور انسان ہیں، میرا ان کیساتھ بہت پرانا تعلق ہے جب وہ وکالت کرتے تھے، وہ ذہین اور قابل انسان ہیں لیکن ایک رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے، بہت ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنا اختلافی نوٹ قرآن پاک کی کسی آیت، حدیث مبارکہ، یا اقوال رسولﷺ سے شروع کرتے، مگر پتہ نہیں وہ کون ہے گاڈ فادر جس سے اختلافی نوٹ شروع کیا ۔ میں نے ہر جگہ یہی دیکھا ہے کہ فارچیون کا مطلب دولت کا ذخیرہ نہیں بلکہ خوش بختی ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک آدمی نے ہر کسی کی پگڑی اچھالنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ، جلسوں میں عدالتوں سے متعلق ہتک آمیز گفتگو کی جاتی ہے ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو دھمکیں اور گالیاں دی جاتی ہیں ، یہی رویہ ”لوچا سب سے اوچا“ کے مترادف ہے لیکن اصل فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے جو 2018ءکے الیکشن میں ہی ہو گا، اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ دھمکیوں اور پراپیگنڈے سے ہم ہتھیار ڈال دیں گے ، ہماری آواز بلند ہونے کو بے تاب ہے اور اگر یہ بلند ہو گئیں تو پھر دبائی نہیں جا سکیں گی۔ الیکشن میں عوام نے حق اقتدار سے محروم کیا تو ہم قبول کریں گے اور چوں چراں نہیں کریں گے اور جسے موقع دیں گے اسے سلام کریں گے