پیر, 06 مئی 2024


صولت مرزا کی پھانسی کیلئے نئے بلیک وارنٹ جاری

ایمز ٹی وی (کراچی) مچھ جیل میں قید صولت مرزا کی پھانسی کیلئے مچھ جیل حکام نے بلیک وارنٹ کے اجرا کی درخواست کی تھی جس کے بعد صدر کے جانب سے صولت مرزا کو 30 اپریل کو پھانسی دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔ صولت علی خان، جو صولت مرزا کے نام سے معروف ہے، متحدہ قومی موومنٹ کا ایک کارکن تھا، جسے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 1999ء میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد، ان کے ڈرائیور اور ان کے ایک محافظ کو ڈیفنس کے علاقے میں 1997ء میں قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔مچھ جیل کے سپریٹنڈنٹ نے ایک خط میں عدالت کو مطلع کیا ہے کہ یکم اپریل کی پھانسی کے لیے چوبیس مارچ کو جاری کیے گئے پچھلے بلیک وارنٹ پر عملدرآمد کو ایوانِ صدر کی جانب سے ایک ماہ کے لیے (یکم اپریل سے تیس اپریل تک) روک دیا گیا تھا۔جیل کے عہدے دار نے کہا کہ یہ حکم امتناعی تیس اپریل کو ختم ہوجائے گا، اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ سزایافتہ مجرم کی پھانسی کے لیے نیا وارنٹ جاری کرے۔امکان ہے کہ عدالت ایک یا دو روز میں نیا ڈیتھ وارنٹ جاری کردے گی۔پچھلے سال دسمبر میں حکومت کی ایک درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے سندھ جیل خانہ جات کے قوانین میں ترمیم کی تھی اور بلیک وارنٹ کے اجراء اور پھانسی کی کم سے کم درمیانی مدت دوہفتوں سے کم کرکے ایک ہفتہ کردی تھی۔سماعت کرنے والی عدالت نے اس سزا یافتہ قیدی کے خلاف پہلا بلیک وارنٹ گیارہ مارچ کو جاری کیا تھا، اور جیل حکام سے کہا تھا کہ وہ اسے تختہ دار پر 19 مارچ کو لٹکادیں۔تاہم اس مجرم کو پھانسی دینے سے چند گھنٹے پہلے صدر نے اس کی سزا کو مؤخر کردیا تھا،اس سے قبل مجرم کا ایک وڈیو پیغام نجی نیوز چینلز پر نشر کیا گیا تھا، جس میں اس نے ایم کیو ایم کی اعلیٰ سطح کی قیادت کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے تھے۔بعد میں سزائے موت کے منتظر قیدی کے الزمات کی جانچ کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔بائیس مارچ کو جیل حکام کی جانب سے ٹرائل عدالت کو مطلع کیا گیا کہ تین دن کا حکم امتناعی ختم ہوگیا ہے اور انہیں مزید کسی قسم کا حکم امتناعی موصول نہیں ہوا ہے تو ایک اور بلیک وارنٹ یکم اپریل کی پھانسی کے لیے چوبیس مارچ کو جاری کیا گیا۔واضح رہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے موجودہ جج محمد جاوید عالم اس وقت بھی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج تھے، جنہوں نے مئی 1999ء میں اس ملزم کو سزائے موت سنائی تھی۔سندھ ہائی کورٹ نے 2000ء میں مجرم کی اپیل کو مسترد کردیا اور سپریم کورٹ نے بھی 2001ء میں سزائے موت کے خلاف اس کی اپیل رد کردی تھی۔سپریم کورٹ نے 2004ء میں بھی ایک نظرثانی کی درخواست مسترد کردی تھی۔ مجرم کی ایک دہائی پرانی رحم کی اپیل کو حال ہی میں چند مہینے قبل صدر کی جانب سے بھی مسترد کردیا گیا تھا پھانسی کے منتظر اس قیدی کو کچھ دیگر ہائی پروفائل قیدیوں کو کراچی سے مچھ جیل میں پچھلے سال اپریل میں منتقل کیا گیا تھا۔ صوبائی حکام کے مطلع کرنے پر کہ سزایافتہ مجرم کو مچھ جیل میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر منتقل کیا گیا تھا، تو سندھ ہائی کورٹ نے دو مرتبہ مجرم کی جانب سے کراچی سینٹرل جیل میں واپس منتقلی کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔یاد رہے کہ شاہد حامد، ان کے ڈرائیور اشرف بروہی اور ان کے محافظ خان اکبر کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا، جب اس وقت کے ای ایس سی کے سربراہ ڈی ایچ اے میں اپنے گھر سے 5 جولائی 1997ء کو اپنے گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ اس وقت گلبہار کے ایس ایچ او محمد اسلم خان نے ملزم کو دسمبر 1998ء میں کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا تھا، جب وہ بنکاک سے جعلی پاسپورٹ پر یہاں پہنچا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ کے ای ایس سی میں کام کرنے والے پارٹی کے حمایتیوں کی برطرفی کا بدلہ لینے کے لیے شاہد حامد کو قتل کیا گیا تھا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment