ایمزٹی وی(کراچی)سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سمندری آلودگی کی سنگین صورتحال سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن شہریوں کو گندہ پانی مہیا کیا جارہا ہے اور یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے، پانی کی قلت سے واٹر مافیا مضبوط ہوتی ہے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ پانی کی چوری کی مستقل نگرانی کر رہے ہیں، گندے پانی کی وجہ زیر زمین لائنوں میں غیر قانونی کنکشن اور لیکیج ہے، کینجھر جھیل سے آنے والا پانی صاف ہے، ساڑھے چار ہزار ٹینکر یومیہ چلے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ شہر میں پانی کی لائنیں 20,25 سال سے تبدیل نہیں ہوئیں۔
چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ کیا آپ ضمانت دیتے ہیں کہ ابھی کینجھر جھیل چیک کرائیں تو پانی صاف ہوگا، پانی سے صرف مٹی نکالنے کو فلٹریشن نہیں کہتے، کیا یہ پانی پاک اور پینے کے قابل ہوتا ہے، کراچی میں 45 لاکھ ملین گیلن گندہ پانی سمندر میں جا رہا ہے، کیا یہ معمولی بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے چھ ماہ میں پانی کے مسئلے کا حل چاہیئے، پچھلی مرتبہ میں پورٹ گرینڈ گیا جہاں کچرے کے ڈھیر تھے، کچرا سر سے اوپر تک دکھائی دے رہا تھا، آخر یہ کچرا کون اٹھائے گا، ہیپاٹائیٹس تیزی سے پھیل رہا ہے کیا پوری قوم کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں، پانی کی فروخت کاروبار بن چکا ہے، پانی فراہمی کا کوئی نظام نہیں، یہ واٹر بورڈ کی غفلت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہر مسئلے کا جواز طے کر کے بیٹھیں ہیں، کل رات بھی باتھ آئی لینڈ میں ٹینکر سے پانی لیا، واٹرٹینکرز اور ہائیڈرنٹس ختم کیوں نہیں کرسکتے، کیا آپ کا بندہ ماہانہ پیسے وصول نہیں کرتا، پانی دیتے نہیں ٹینکرز چلا کر کمائی کا دھندہ چل رہا ہے، ہمیں بتایا جائے اسپتال، میونسپل اور صنعتی فضلے سے متلعق کیا اقدامات اٹھائے گئے، آج مجھ سے جہاز میں لوگوں نے پوچھا، چیف جسٹس صاحب کیا آپ جس مسئلے کے لیے کراچی جا رہے ہیں وہ مسئلہ حل ہو سکے گا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پنجاب میں بھی پانی کا معاملہ اٹھایا ہے، اس مسئلے کو حل کرکے رہیں گے، دریاؤں اور نہروں میں زہریلا پانی ڈالا جارہا ہے اور وہی پانی شہریوں کو پینے کےلیے دیا جا رہا ہے، واٹر کمیشن نے مسائل کی نشاندہی کی ہے اور اسباب بھی بتائے ہیں جبکہ سندھ حکومت نے واٹر کمیشن کی رپورٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ کو بھی اس لیے طلب کیا کہ وہ مسئلے کے حل کا ٹائم فریم دیں۔
چیف جسٹس نے اے جی سندھ سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ 5 دسمبر سے اب تک کیا اقدامات کیے گئے، عدالت کو حلف نامے پر ٹائم فریم چاہیے، چیف سیکرٹری صاحب یہ مسئلہ الیکشن سے قبل ہی حل ہوجانا چاہیے، سندھ حکومت پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ عدالت کے پاس توہین عدالت کا اختیار بھی ہے، رات 12 بجے تک بھی اس کیس کی سماعت کرنا پڑی تو کریں گے۔