کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی آمد پر مختلف سماجی و قومی مسائل پر سماعتوں کا آغاز کردیا ہے، آج کالا باغ ڈیم کا مردہ معاملہ پھر زندہ ہوا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس نے مختلف اہم کیسوں کی سماعت کی، جن میں کالا باغ ڈیم جیسا نازک اور اہم قومی معاملہ بھی شامل ہے۔ پانی کے بحران کے سلسلے میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران ایڈووکیٹ مجیب پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ پانی بحران حل کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن کالا باغ ڈیم کا نام جہاں آتا ہے ایک تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تنازعہ پیدا کرنے والا کوئی حکم نہیں دیں گے، چار بھائی متفق نہیں تو متبادل حل نکالیں، ہم آنے والی نسل کو اچھا مستقبل دے کرجائیں گے، وعدہ ہے ایسا حکم نہیں دیں گے جس سے کوئی فریق متاثر ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سیمینارز کے ذریعے پہلا قدم اٹھائیں گے اور کراچی اور سندھ سے اس کا آغاز کریں گے، ہم جوڑنے کے لیے بیٹھے ہیں توڑنے کے لیے نہیں، عدالت نے سابق چیئرمین واپڈا ظفرمحمود سے تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے کہا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے کئی حل موجود ہیں، کئی منصوبے ہیں جن میں سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے، چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ یہ منصوبے تو کاغذ پر تھے، ہم نےنوٹس لیا تو کام شروع ہوا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جہاں ٹریٹمنٹ پلانٹس لگنے تھے وہاں سوسائٹیز بنادی گئیں، آپ کی حکومت تو 10 سال سے ہے لیکن ایک منصوبہ بھی نظرنہیں آیا۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے عدالت کو بتایا کہ کالا باغ ڈیم کے لیے ریفرنڈم کرایا جاۓ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنڈم عدالت نہیں وفاقی حکومت کراسکتی ہے، ہمارے لیے آئین سپریم ہے اور آئین کا احترام سب کو کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پرشمس الملک سے بریفنگ لی جاۓ گی، وہ اس سلسلے میں تعاون کریں گے، میں اپنی سربراہی میں کمیٹی قائم کروں گا جو معاملات دیکھے گی۔