کراچی انٹر بورڈ کی رپورٹ کے مطابق شہر قائد کراچی میں 127 کالجز ایسے ہیں جو 33 فیصد رزلٹ بھی نہ دے سکے ہیں، سال 2017 میں 23 کالجز کا نتیجہ صفر رہا ہے، جبکہ 2018 میں 25 کالجز میں ایک بھی بچہ پاس نہ ہو سکا۔رپورٹ کے مطابق اِن 25 کالجز میں 5 پرائیوٹ کالجز ایسے ہیں جو کئی سالوں سے صفر رزلٹ دے رہے ہیں۔
مگر ان تمام تر معاملات کے باوجود بورڈ نے اج تک کسی کاروائی کی زحمت تک نہ کی۔چیئرمین انٹر بورڈ انعام احمد کہتے ہیں کہ کالجز بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم ملک میں پھیلے، اگر ان کالجز کو بند کیا جائے تو ان طلبہ کا کیا ہوگا جنہوں نے میٹرک میں کافی کم مارکس حاصل کیے ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر تیس فیصد سے کم نتائج پر کالجز بند کرنے کا قانون ہے تو یہ کالجز سالہا سال سے کیوں چل رہے ہیں۔جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کالجز امتحانات کے دنوں میں من پسند سینٹرز کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کے ذریعے خوب پیسہ کمایا جاتا ہے
۔اکثر سرکاری کالجز میں کی جانے والی سیاسی بھرتیاں بھی ایک مسئلہ ہے جہاں اساتذہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی محکمہ تعلیم انجان ہے۔وہ کالجز جو صفر نتائج دیتے ہیں ان کے پرنسپلز کا بھی الگ ہی رونا ہے۔ وہ کہتے ہیں جو کالجز بہترین مارکس والے طلبہ کا انتخاب کرتے ہیں وہ بھی سو فیصد رزلٹ نہیں دے پاتے۔ایسے ماحول میں والدین سخت پریشانی سے دوچار ہیں جو پیسے خرچ کرنے کے باوجود کوئی نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
بورڈ بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ محکمہ تعلیم کو بھی طلبہ کے مستقبل کا خیال کوئی خیال نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ والدین یہاں بچوں کو فیل ہونے کے لئے داخلہ دلاتے رہیں گے اور سلسلہ یوںہی چلتا رہے گا۔