کراچی: صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ کسی پر ذمے داری نہیں ڈال رہا جو ہماری ذمے داری ہے تسلیم کرتے ہیں، ہر سال تقریباً 50، 50 کروڑ شہری حکومت کو نالوں کی صفائی کے لیے دیے جاتے رہے۔
صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ مختلف شاہراہوں سے پانی نکال دیا گیا ہے، سارے کاموں میں ڈی ایم سی اور کے ایم سی کا عملہ موجود تھا، بارش سے کوئی بڑی شاہراہ مکمل طور پر بند نہیں ہوئی۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ ہر بڑی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی جاری تھی، شاہراہ فیصل پر 3 مقامات پر پانی کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوا، تمام اداروں نے اچھی کو آرڈینیشن کے ذریعے کام کیا۔ اس وقت ہمارا ٹارگٹ آبادیوں کا پانی نکالنا ہے، یوسف گوٹھ اور سعدی ٹاؤن گزشتہ بارشوں میں پورا ڈوب گیا تھا۔ ان دونوں علاقوں سے ابھی پانی نکالنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال پانی کو کنٹرول کیا گیا، آج صبح سویرے سعدی ٹاؤن میں پانی گیا ضرور ہے نقصان نہیں ہوا۔ پانی کے قدرتی بہاؤ کو آپ نہیں روک سکتے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ سپر ہائی وے ایم نائن سے جو پانی کا فلو تھا اب وہ کم ہو گیا ہے، کراچی کی بہت ساری آبادیاں ہیں جہاں پانی کھڑا ہے۔ اب ان آبادیوں سے پانی نکالنے کا کام شروع کیا جائے گا۔ ڈی ایم سی مشینیں لگائے اور پانی نکالے۔
انہوں نے کہا کہ بارشوں میں کرنٹ لگنے سے 20 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، گزشتہ روز 2 وفاقی وزرا کی باتیں سن کر افسوس ہوا۔ دھابیجی پمپنگ میں خرابی سے 400 ملین گیلن پانی نہیں دیا جا سکا۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ کسی پر ذمے داری نہیں ڈال رہا جو ہماری ذمے داری ہے تسلیم کرتے ہیں، 4 دن پہلے کمشنر آفس میں میٹنگ ہوئی وہاں میئر صاحب سے نالوں کی صفائی پر پوچھا۔ ہر ڈی ایم سی نے اپنے حدودمیں نالوں کا احوال بتایا۔ میئر صاحب باقائدہ تصاویر لے کر آئے کہ یہ نالے پہلے ایسے تھے اب صاف کر دیے گئے۔
صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ بڑے نالوں کی صفائی کے ایم سی اور چھوٹے نالوں کی ذمے دار ڈی ایم سی ہے۔ کہتے ہیں نالوں کی صفائی کے پیسے نہیں، ہم پیسے دیتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ سال 50 کروڑ روپے دیے تھے۔ ڈی ایم سی نے بتایا مالی وسائل کم تھے کچھ نالے صاف ہوئے کچھ نہیں۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے کے فور کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلایا، میٹنگ میں کسی نے کوئی بات نہیں کی باہر نکل کر شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بات بہت بری لگتی ہے اپنی ذمے داری دوسروں پر ڈال دی جائے۔ لوگ تکلیف میں ہوتے ہیں، ہم ایک دوسرے پر الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ کراچی کے 2 وفاقی وزرا اسلام آباد میں بیٹھ کر باتیں کر رہے ہیں، وفاقی حکومت چاہتی ہے کراچی کے مسائل پر کام ہو تو 162 ارب کہاں ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ہر سال تقریباً 50، 50 کروڑ ان کو نالوں کی صفائی کے لیے دیے جاتے رہے، کے ایم سی 95 فیصد گرانٹ پر چلتی ہے۔ اس وقت کے ایم سی 5 فیصد ریونیو جنریٹ کر رہی ہے باقی ہم دیتے ہیں، جہاں ان کی اپنی ناکامی ہے اس کو بھی دیکھنا چاہیئے۔