جمعہ, 19 اپریل 2024


اگرکروناوائرس بڑھتا ہےتوہمیں مجبوراً تعلیمی اداروں کوبندبھی کرنا پڑسکتاہے

کراچی: وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نےپریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یکم فروری سےپورے ملک کی طرح سندھ بھر میں تمام تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں اور ہماری والدین سے استدعا ہے کہ وہ محکمہ صحت اور تعلیم کی جانب سے جو ایس او پیز بنائی گئی ہیں اس پر وہ خود بھی اپنے بچوں کی اسکول میں مانیٹرنگ کو یقینی بنائیں، والدین کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو اسکول وین یا دیگر ٹرانسپورٹ کی بجائے خود لینا چھوڑنا کریں۔ ماسک اور سینیٹائزر کے استعمال کو یقینی بنائیں ۔ انہوں نے کہا کہ خدانخواستہ اگر کرونا وائرس بڑھتا ہے تو ہمیں مجبوراً تعلیمی اداروں کو بند بھی کرنا پڑ سکتا ہے

ہماری ایس او پیز اسکول انتظامیہ، والدین اور بچوں کے لئے ہیں اور ہم ان پر عمل پیرا ہوکر تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روک سکیں گے۔ ان اسکولوں کو اس بات کی چھوٹ دی گئی ہے، جنہوں نے کرونا ایس او پیز کی تیاری مکمل نہیں کی ہے وہ کچھ دنوں کے بعد اسکولز کھول سکتے ہیں، اسی طرح جو والدین اپنے بچوں کو کرونا کے خدشہ کے باعث اسکول بھیجنا نہیں چاہتے تو اسکول بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔

۔ سعید غنی کابورڈ امتحانات کےحوالےسےکہنا تھاکہ ہم نے اس سال امتحانات کے شیڈول کو تبدیل کیا ہے اور اس حوالے سے جلد امتحانی ماڈل پیپر بھی جاری کیا جارہا ہے اس سال ہم نے امتحانات کے وقت کو ایک گھنٹہ کم کیا ہے اور امتحانی طریقہ کار کو تبدیل کیا ہے اور اس حوالے سے بچوں اور والدین میں کچھ چیزوں کو لے کر الجھن کا سامنا ہے، اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے ہم جلد ہی ایک امتحانی ماڈل پیپر شائع کردیں گے تاکہ ان کو آسانی ہوسکے۔ جبکہ ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ جو کورس ہم نے 60 فیصد کیا ہے اس کو امتحانات سے قبل مکمل کرایا جاسک

۔ 20 فیصد کی لاک ڈاؤن میں رعایت دی گئی تھی، اس پر تمام نجی اسکولوں کو لازمی عمل کرنا ہے البتہ فیس معافی کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک صوبے بھر کے کالجز میں اب تک 13966 کرونا ٹیسٹ کئے گئے ہیں، جس میں سے 12121 منفی اور 265 کے نتائج مثبت آئے ہیں اور ابھی 1580 کے نتائج آنا باقی ہے۔ اس طرح یہ 1.9 فیصد بنتے ہیں، اسی طرح اسکولوں میں اب تک 11845 میں سے 8457 منفی اور 546 مثبت آئے ہیں اور ابھی 2642 کے نتائج آنا باقی ہے اس طرح یہاں مثبت کا تناسب 5.9 فیصد ہے
نہوں نے کہا کہ دادو ہو یا دیگر ڈسٹرکٹ وہاں جو بھی گھوسٹ اسکول بنے وہ 2008 سے قبل بنے انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبہ سندھ میں تمام اسکولوں کو جی پی ایس سے کنیکٹ کردیا ہے اور جہاں جہاں ایسے اسکول ہیں جن کی یا تو عمارتیں نہیں، یا استاد یا طلبہ نہیں اس کو اپنی فہرست سے نکال رہے ہیں اور اب تک 3 ہزار ایسے اسکولز کی نشاندہی ہوگئی ہے اور ان کو فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment