کراچی: آل سندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن نےسندھ بھرمیں نئےتعلیمی سال آغاز کرنےکامطالبہ کیاہے۔
تفصیلات کے مطابق آل سندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی نے کہا ہے کہ دو سال کے نقصان کی وجہ سے یونیورسیٹیز کے طالبعلموں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے اسی وجہ سےوزرائے تعلیم این سی او سی اور وزیر اعلی سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ 9 اگست سے نئے تعلیمی سال کے آغاز کا اعلان کیا جائے اور سندھ بھر کی جامعات میں بھی 9 اگست سے نیا سیمسٹر شروع کیا جائے۔
مرکزی رہنماؤں ڈاکٹر نجیب میمن، دوست محمد دانش، شہاب اقبال، مرتضی شاہ شیرازی، محمد سلیم، توصیف شاہ، محمد ساجد، اعجاز علی، یونس قائم خانی، شکیل سومرو، مرزا اشفاق بیگ، منیر عباسی، امتیاز ڈوگر، امتیازصدیقی، خان محمد، جمیل احمد ھوت، میڈم طاہرہ منصور، اشفاق احمد اور دیگر نےحمایت کرتے ہوئے اپنے مشترکہ بیان میں وزرائے تعلیم این سی او سی اور وزیر اعلی سندھ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کی بار بار بندش سے سندھ کے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ طلبہ وطالبات کا مستقبل زوال پذیر ہے۔۴گست کو ہونے والے اجلاس میں سندھ میںدو سال کے نقصان کی وجہ سے یونیورسیٹیز کے طالبعلموں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
مسلسل تیسرے سال تعلیمی قابلیت کا نا قابل اندازہ نقصان برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ سرکاری و نجی اسکولز میں ایس و پیز اور 50 فیصد حاضری کے ساتھ کلاسز کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 70 سے 80 فیصد ایجوکیشن اسٹاف ویکسین لگواچکے ہیں۔
نویں، دسویں جماعت کے عملی امتحانات کا شیڈول بھی جاری کیا جائے۔ سندھ میں انٹرمیڈیٹ کے باقی ماندہ پیپرز اور عملی امتحانات کا شیڈول بھی فوری جاری کیا جائے ۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ سندھ میں اسکولز سے باہر بچوں کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ سے بھی زائد ہو گئی ہے ۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ لاکھوں افراد کا مالی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں نجی تعلیمی اداروں کے لیے قرض حسنہ کی آسان اور قابل عمل اسکیم کا فوری اعلان کریں ۔
اسکولوں میں موجود بچوں کی تعداد کا کم از کم 30 فیصد تعلیم کو خیر باد کہہ چکاہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔اسکول چھوڑ دینے اور اسکولوں سے باہر بچوں کو واپس اسکولز میں لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے مزیدبتایاکہ تعلیم سے منسلک دیگر کاروبار بک سیلرز، اسٹیشنرز ، ٹرانسپورٹرز، کینٹین کنٹریکٹرز، یونیفارم میکرز، پبلشرز، کاپی بائنڈرز اور پرنٹرز مسلسل نقصان برداشت کر رہے ہیں اور بد حالی کا شکار ہوچکے ہیں۔