Tuesday, 15 October 2024
Reporter SS

Reporter SS

ایچ ای سی کا جنوبی پنجاب دفتر بند کر دیا گیا، علاقائی دفاتر میں 17گریڈ کے انچارجز، طویل عرصے سے کوئی 20گریڈ کا ڈائریکٹر ہی نہیں بنا، ایڈ ہاک بنیادوں پر کام ہونے لگا۔

وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن جہاں کنسلٹنٹ کی بھرتی میں عجلت دکھارہی ہے وہیں اس نے جنوبی بنجاب میں ایچ ای سی کا علاقائی مرکز بند کردیا ہے جب کہ چاروں صوبوں میں قائم ریجنل دفاتر کے سربراہ جو 20 گریڈ کے ڈائریکٹر جنرل ہوتے تھے وہاں 17اور 18گریڈ کے افسران لگا کر ایڈہاک بنیادوں پر کام چلا کر ان کی اہمیت ہی ختم کر دی ہے۔

سابق وزیر تعلیم بلیغ الرحمان کے دور میں جنوبی پنجاب کی اہمیت اور عوام کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے جنوبی پنجاب کے شہر بہاول پور میں ریجنل دفتر قائم کیا گیا تھا تاہم اسے بند کردیا گیا ہے اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کو لاہور کے علاقائی دفتر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پنجاب کے شہر لاہور میں قائم علاقائی دفتر میں 19گریڈ کے ڈائریکٹر شہباز عباسی کو انچارج مقرر کیا گیا ہے جبکہ پنجاب میں جامعات کی تعداد 70ہے۔

خیبر پختونخوا کے علاقائی مرکز پشاور میں 20گریڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی گزشتہ سال ستمبر میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں 17گریڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شفیع الرحمان کام کر رہے ہیں جب کہ خیبر پختونخوا میں جامعات کی تعداد 40ہے۔

بلوچستان کے علاقی مرکز کوئٹہ کے دفتر میں گزشتہ سال مئی میں 20 گریڈ کے ڈی جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد 17 گریڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر احسن حمید کو انچارج بنادیا گیا ، بلوچستان میں 9جامعات ہیں۔

سندھ کے علاقائی دفتر واقع کراچی میں طویل عرصے سے کوئی 20گریڈ کا ڈائریکٹر ہی نہیں،18گریڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر حکیم تالپورکو انچارج مقرر کر رکھا ہے جب کہ سندھ میں جامعات کی تعداد 60ہے۔

ہائر ایجوکیشن کی ترجمان عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن معیار اور رسائی دونوں پر یکساں توجہ دینے کے لئے منتقلی کے عمل سے گزر رہا ہے جس کے تحت کچھ عہدوں کی تنظیم نو کی جائے گی اور دوسروں کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا جبکہ کچھ نئی جگہیں تشکیل دی گئی ہیں، اس دوران تمام خدمات کو عام سطح پر برقرار رکھا جائے گا۔

 

 

 

 

 

محکمہَ صحت، حکومتِ سندھ کی کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری (سی بی ایل) کراچی کا توسیعی و ترقیاتی کام آئیندہ چار سے پانچ مہینوں میں ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری جامعہ کراچی کی زیرِ نگرانی مکمل کیا جائے گا۔

 سی بی ایل کراچی کے توسیعی و ترقیاتی کام کاپہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے ، ایچ ای جے انسٹی ٹیوٹ یہ کام رضاکارانہ بنیادوں پر انجام دے رہا ہے۔

حکومتِ سندھ کی جانب سے لیبارٹری کی توسیع و ترقی بالخصوص آلات کی خریدوفروخت ، تیکنیکی اسٹاف کی تربیت وغیرہ کی مد میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کو 8 کروڑ فراہم کرچکی ہے، جب کہ محکمہَ صحت اورآئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کے درمیان دستخط شدہ مفاہمت کی یاد داشت کے مطابق محکمہَ صحت سندھ135ملین روپے بین الاقوامی مرکز کو کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری کی توسیع و ترقی کی مد میں دے گا ۔

یہ بات آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری نے ہفتے کو ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران کہی ، اجلاس میں ڈاکٹر شکیل احمد اور جاوید ریاض سمیت دیگر آفیشل بھی موجود تھے ۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے کہا کہ سی بی ایل کراچی کی توسیع و ترقی کے حوالے سے کام کا پہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے، اس حوالے سے آلات کی خریدوفروخت کے لیے ٹینڈرنگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے، لیبارٹری مینجر کی بھی تقری ہوچکی ہے، اس ترقیاتی کام کادوسرا مرحلہ ساءٹ کی تیاری سے متعلق ہے ۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں محکمہَ صحت سندھ اور بین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی کے درمیان ایک مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط ہوئے تھے جس کا مقصد کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری کی توسیع و ترقی میں محکمہ صحت کی مدد کرنا تھا۔اس معاہدے پر دستخط صوبائی وزیرِصحت ڈاکٹر عزرا پیچو کی زیرِصدارت منعقدہ ایک تقریب کے دوران ہوئے تھے ۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے کہا آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کو اعلیٰ تحقیقی ادارے قائم کرنے اور اُنھیں چلانے کا وسیع تجربہ ہے ،اور اس تجربے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سندھ حکومت کی کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری کی ترقی اور توسیع کے لیے بین الاقوامی مرکز اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر انجام دے رہا ہے۔

انھوں نے کہا اس پروجیکٹ کے تکمیل کے بعد سندھ کی کیمیکو لیبارٹری بنیادی کیمیائی تجربات کرنے کے قابل ہوجائے گی، اس پروجیکٹ کو قومی خدمت کے جزبے کے تحت پایہَ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی مرکز بلکہ پوری جامعہ کراچی کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

 

 

محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کی پرفارمنگ آرٹس سوسائٹی کی سربراہ فریحہ خلیل نے کورونا وائرس کے خاتمے کی جنگ لڑنے والے قومی ہیروز جن میں ڈاکٹرز، نرس، پیرا میڈیکل اسٹاف، رینجرز، پولیس اور سوشل ورکرز وغیرہ شامل ہیں، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے آن لائن پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا  ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف کامیابی کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس برے وقت میں اساتذہ آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ کر اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور اس جنگ میں برابر کے شریک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے کام کرنے والے قومی ہیروز کو آن لائن  خراج تحسین پیش کرنے کی مہم میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ اپنے ویڈیو بیانات اور نغمے سوسائٹی کو ارسال کریں جن میں سے منتخب ویڈیوز پرفارمنس سوسائٹی کے فیس بک پیج پر پوسٹ کی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے علاوہ دوسرے لوگ بھی قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے ویڈیوز بھیج سکتے ہیں۔

 

چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ائیرکنڈیشنرز کورونا وائرس کو پھیلانے کا باعث رہے ہیں۔

جنوبی چین کے ایک ریسٹورنٹ میں جانے والے 3 خاندانوں کے 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے پر اس حوالے سے تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ائیرکنڈیشنر نے ان افراد کے درمیان وائرل ذرات کی منتقلی میں معاونت کی۔

گوانگزو سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق کے نتائج جریدے ایمرجنگ انفیکشنز ڈیزیز میں شائع کیے گئے جو کہ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کا اوپن ایسز جریدہ ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جنوری کے آخر میں گوانگزو شہر کے ایک ریسٹورنٹ میں ائیرکنڈیشنر سے ہوا کا مضبوط بہاؤ نے وائرل ذرات کو 3 میزوں تک پہنچایا۔

تحقیق کے مطابق کورونا مریض نے اگلے دن ریسٹورنٹ میں خاندان کے 3 افراد کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، جس میں کھڑکی نہیں تھی بلکہ ہر منزل میں ایک ائیرکنڈیشنر موجود تھا اور 2 دیگر خاندان بھی اردگرد کی میزوں پر موجود تھے اور ایک میٹر کا فاصلہ تھا جبکہ اوسطاً ایک گھنٹے تک وہ لوگ وہاں موجود رہے۔

پہلے مریض میں اسی دن بخار اور کھانسی کی علامات سامنے آگئیں اور ہسپتال چلا گیا، اگلے 2 ہفتے میں اس کے خاندان کے مزید 4 افراد، دوسرے خاندان کے 4 اور تیسرے خاندان کے 3 افراد نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار ہوگئے۔

سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ دوسرے اور تیسرے خاندان میں اس وائرس کے پہنچنے کی وجہ ریسٹورنٹ میں موجود پہلا مریض تھا۔

مزید تجزیے سے معلوم ہوا یہ وائرل ذرات ائیرکنڈیشنر کے وینٹی لیشن سے پھیلے۔

سائنسسدانوں نے دریافت کیا کہ اسی منزل پر پہلے مریض کے ساتھ 73 مزید افراد بھی کھانا کھا رہے تھے مگر ان میں بیماری کی علامات 14 دن کے قرنطینہ میں ظاہر نہیں ہوئیں اور ٹیسٹ بھی نیگیٹو رہے، اسی طرح ریسٹورنٹ کے عملے میں سے بھی کوئی متاثر نہیں ہوا۔

محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق محدود پیمانے پر ہوئی کیونکہ اس میں تجربہ کرکے اس تھیوری کو آزمایا نہیں گیا، تاہم اس طرح کے مسئلے سے بچنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ائیرکنڈیشنر کا استعمال کریں مگر کھڑکیوں کو بھی اکثر کھول لیں۔

 

سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے سیکرٹری میجر (ر) ذوالفقار علی نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے، جمعہ کو چیئرمین بورڈ ڈاکٹر مسرور شیخ کی جانب سے جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ پر سیکرٹری میجر (ر) ذوالفقار علی کا چارج چھوڑنے کا پیغام موصول ہوا جس کے بعد بورڈ کے ڈپٹی سیکرٹری ون ندیم سلہری کو سیکرٹری کے عہدے کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر سیکرٹری کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ کے تعلیمی بورڈز میں محکمہ بورڈز و جامعات کی جانب سے مقرر کئے گئے سیکرٹریز اور ناظم امتحانات کی تقرریوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا مگر اس کے باوجود بھی سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے سیکرٹری میجر (ر) ذوالفقار علی نے اپنا عہدہ نہیں چھوڑا تھا اور کام جاری رکھا ہوا تھا۔

 

 

امریکا میں کورونا وائرس میں مبتلا تشویش ناک حالت میں اسپتال میں داخل ہونے والے مریض ایک دوا کے استعمال کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں اور ماہرین نے اس دوا کے اثرات کو متاثر کن قرار دیا ہے۔

غیر ملکی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس اینٹی وائرل دوا کا نام ریمدیسیور ہے اس دوا کے استعمال سے کورونا وائرس کی وجہ سے بخار اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہونے والے مریض صحتیاب ہو کر گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔

گیلیاڈ سائنسز کی تیار کردہ یہ دوا امریکا کے شہر شکاگو اور کینیڈا کے مختلف اسپتالوں میں استعمال کی جا رہی ہے اور جن مریضوں کو بھی یہ دوا استعمال کرائی گئی وہ محض ایک ہفتے میں صحتیاب ہوئے۔

یہ دوا تجرباتی بنیادوں پر کورونا کے مریضوں کو دی جا رہی ہے لیکن گیلیاڈ سائنسز کی تحقیق کے حتمی نتائج کا دنیا بھر کے ماہرین کو انتظار ہے۔ حتمی نتائج میں دوا کے متاثر کن بتائے جانے کی صورت میں امریکا میں خوراک اور دوا کے سرکاری ادارے ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ کی طرف سے اسے فوری منظوری ملنے کا امکان ہے۔

سندھ کی 6 جامعات میں وائس چانسلرز اور 7 تعلیمی بورڈز میں چیئرمین، سیکرٹریز اور ناظم امتحانات کے خالی عہدوں پر مستقل تعیناتی کی بجائے محکمہ بورڈز و جامعات نے لاک ڈائون کے دوران سفارشی بنیادوں پر پرووائس چانسلر کی تعیناتی شروع کردی ہے اس سلسلے میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو میں پروفیسر اکرام الدین اجن کو 4 سال کے لئے پرووائس چانسلر مقرر کردیا ہے.

یہ تقرری ایسے وقت کی گئی ہے جب جامعات اور محکمہ بورڈز و جامعات کورونا وائرس کے پھیلاو کے باعث بند ہیں تاہم اس کے باوجود پی وی سی کی تعیناتی کردی گئی۔

جامعات کے نئے ترمیمی ایکٹ میں پرووائس چانسلر کے تقرر کے لئے وائس چانسلر کی سفارش کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے اور حاضر سروس پروفیسر ہی پرو وائس چانسلر ہو سکتا ہے لیکن محکمہ بورڈ و جامعات نے گزشتہ دو سال کے دوران ریٹائرڈ یا ریٹائرمنٹ کے قریب افراد کو پہلے پرووائس چانسلر مقرر کیا۔

 

 
 
 
 
 
 
فیس بک نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متعلق درست معلومات کی فراہمی کے لیے وزارت قومی صحت وخدمات، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف جیسے اداروں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے ۔
 
فیس بک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے کورونا وائرس کے حالیہ پھیلاؤ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر ایک کو محفوظ بنانے اور باخبر رکھنے کے لیے 4 پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
 
فیس بک کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ ہر شخص کے پاس درست معلومات پہنچے، غلط اور نقصان دہ معلومات کا پھیلاؤ روکا جائے، امدادی کاوشوں اور ماہرین صحت کو تعاون فراہم کیا جائے،اور مقامی حکومتوں، علاقوں اور کاروبار کرنے والوں کو مدد فراہم کی جائے۔
 
فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ چھوٹے و بڑے پیمانے پر پاکستانی حکومت، علاقوں اور کاروباری افراد کے ساتھ کام کررہا ہے تاکہ اس مشکل وقت میں راستہ نکالنے کے لیے انہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی طاقت سے لیس کیا جائے۔
 
فیس بک کے مطابق فیس بک اور انسٹاگرام پر کسی بھی شخص کو اس وائرس سے متعلق معلومات تلاش کرنے پر سرچ کے اولین نتائج میں عالمی ادارہ صحت سمیت صحت کے ادارے، صحت کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں کی تفصیلات نمایاں ہوں گی۔
 
فیس بک نے حال ہی میں اپنے پلیٹ فارم پر کورونا وائرس انفارمیشن سینٹر متعارف کرایا جو لوگوں کو وزارت قومی صحت جیسے مستند اداروں سے معلومات کی تلاش کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ صحت کے حوالے سے اپنے گھرانے اور علاقے میں تعاون کے لیے کام کرسکیں گے۔
 
فیس بک نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ لوگ کس طرح سے فیس بک کے استعمال سے مقامی آبادی کی مدد کے لیے کام کررہے ہیں اس لیے ان کاوشوں میں اضافے کے لیے فیس بک نے کمیونٹی ہیلپ کا آغاز کیا جہاں لوگوں کو کورونا وائرس سے انتہائی متاثرہ اپنے پڑوسیوں کےلیے مدد ملے گی۔
 
فیس بک کے مطابق اس کمیونٹی ہیلپ کے ذریعے لوگ اپنے پڑوسیوں کی مدد کے لیے درخواست کرسکتے ہیں اور امدادی کاموں کے لیے فنڈز کا عطیہ بھی کرسکتے ہیں۔
 
 
 
 
 
 
کورونا وائرس گزشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کورونا وائرس عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اب یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ اس کے اثرات پھیپڑوں کے ساتھ گردوں پر بھی پڑتے ہیں۔
 
کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
 
تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
 
 
وائرس کے حملے سے پھیپھڑوں میں ورم اور ہوا کی چھوٹی چھوٹی گزرگاہیں مزید تنگ ہوجاتی ہیں جو انسانی جسم میں آکسیجن کی فراہمی کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں۔
 
اس حوالے ایسے شواہد بھی سامنے آرہے ہیں کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 صرف پھیپھڑوں کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ یہ دل اور دماغ کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
 
گردوں کو نقصانات پہنچنے سے متعلق چائنا میں کی گئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کورونا وائرس نے کچھ مریضوں کے گردوں کو بھی نقصان پہنچایا اور تحقیق میں اس وائرس کے ذرات گردوں میں دریافت کیے گئے, اس بات کا انکشاف کرونا سے مرنے والے افراد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہوا۔
 
تحقیق میں سائنسدانوں نے بتایا کہ بعد از مرگ پوسٹمارٹم رپورٹ میں26 میں سے 9 افراد کے گردوں کو نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا۔
 
اس کے علاوہ یالے اسکول آف میڈیسین کے گردوں کے امراض کے ماہر ایلن کلیگر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کووڈ 19 کے شکار ہوکر اسپتال میں داخل ہونے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کے پیشاب میں خون یا پروٹین موجود ہوتا ہے جو گردوں کو پہنچنے والے ابتدائی نقصان کا عندیہ ہے۔
 
انہوں نے مزید بتایا کہ نیویارک اور چین کے شہر ووہان میں آئی سی یو میں داخل ہونے والے 14 سے 30 فیصد مریضوں میں گردوں کے افعال ختم ہوگئے اور ڈائیلاسز کی ضرورت پڑی۔
 
 
 
 
اسلام آباد: پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے موبائل رجسٹریشن کی مدت میں تیس روز تک کی توسیع کردی۔
 
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ موبائل کی رجسٹریشن توسیع کے بعد اب 18 مئی تک کرائی جاسکتی ہے۔پی ٹی اے ترجمان کا کہنا ہے کہ 18 مئی کے بعد تمام غیر تصدیق شدہ موبائل بلاک کردیے جائیں گے۔
 
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غیر تصدیق شدہ موبائل رجسٹریشن کی تاریخ میں توسیع کرونا وائرس کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر کی گئی تاکہ عوام سماجی فاصلے کو برقرار رکھیں اور وبا سے محفوظ رہ سکیں۔
 
 
پی ٹی اے کے مطابق غیر تصدیق شدہ موبائلز کو بلاک کرنے کا آغاز 19 مئی سے کیا جائے گا جبکہ اُس سے قبل صارف کو بذریعہ ایس ایم ایس آگاہ بھی کیا جائے گا۔
 
 
پاکستانی قواعد کے مطابق ایسے تمام موبائل جن کو مقامی کنکشن پر استعمال کیا جاتا ہے انہیں ڈیوائس Active کرنے کے بعد 60 روز کی مہلت دی جاتی ہے۔ صارف 60 روز میں اپنے موبائل کو رجسٹرڈ کروالے تو یہ قابلِ استعمال ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اسے بلاک کردیا جاتا ہے۔
 
 
پی ٹی اے نے موبائل کی رجسٹریشن معلوم کرنے کے لیے ڈی آئی آر بی ایس نامی موبائل ایپ متعارف کرائی جبکہ ویب سائٹ پر بھی سروس موجود ہے اس کے علاوہ جو صارفین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرسکتے وہ اپنے موبائل سے #8484* ڈائل کر کے بھی رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔
 
واضح رہے کہ کرونا وائرس کے پیش نظر پی ٹی اے نے 18 مارچ کو غیر تصدیق شدہ موبائل بلاک کرنے کے عمل کو عارضی طور پر روکنے کا اعلان کیا تھا۔ پی ٹی اے کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ موبائل ڈیوائسز کی رجسٹریشن کا وقت 60 روز سے بڑھا کر 90 دن تک کردیا گیا ہے تاکہ عوام کو پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
 
یاد رہے کہ حکومت نے گزشتہ برس کے آخر تک موبائل فون کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی جس کے بعد اس کی تاریخ میں 15 جنوری تک توسیع کی گئی تھی بعد ازاں اس کی تاریخ کو 14 فروری تک بڑھایا گیا تھا جبکہ کمپنیز کو 29 مارچ تک کی تاریخ دی گئی تھی۔
 
 
گزشتہ برس نومبر میں وفاقی کابینہ نے اسمگل شدہ موبائل فونز کی روک تھام کے لیے نئی پالیسی تشکیل دی تھی ، وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کا کہنا تھا بیرون ملک سے ذاتی استعمال کے لیے فون لانے والے افراد ہر سال ایک فون بغیر ڈیوٹی کے لاسکیں گے اور مجموعی طور پر ایک سال میں پانچ فون لانے کی اجازت ہوگی تاہم اگر پاکستان میں قیام 30 دن سے زیادہ کا ہو تو ان چار فونز پر کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی ہوگی۔
 
وزیر مملکت برائے ریونیو کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے اس بات کی منظوری دی ہے کہ نئے اور استعمال شدہ موبائل فون کی درآمد پر پالیسی میں نرمی کی جائے، استعمال شدہ فون کی درآمد پر پابندی اُٹھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، اگر وہ ماڈل پی ٹی اے کے منظور شدہ ہوں اور ان پر کسٹم ڈیوٹی ادا کیے جائیں