بدھ, 26 جون 2024
Reporter SS

Reporter SS

ایمزٹی وی (اسلام آباد) حکومت نے پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا جو رجسٹرار سپریم کورٹ کو موصول ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق وزارت قانون کے قائم مقام سیکریٹری کی جانب سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھا گیا ہے جس میں چیف جسٹس سے پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہےکہ پاناما لیکس میں پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے، تحقیقاتی کمیشن پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت قائم کیا جائے جب کہ چیف جسٹس کمیشن کی سربراہی ترجیحی بنیادوں پر خود کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کے ساتھ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس بھی منسلک ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٹرمز آف ریفرنس میں کہا گیا ہےکہ تحقیقاتی کمیشن پاکستانیوں کے آف شور کمپنیاں بنانے کی تحقیقات کرے، کمیشن پاناما لیکس میں شامل پاکستانیوں کی تحقیقات کرے گا اوررقوم بیرون ملک بھجوانے کی تحقیقات بھی کرائی جائیں۔ ٹی او آرز میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی اثرو رسوخ سے قرضے معاف کرنے والوں کی تحقیقات کرائی جائیں، آف شور کمپنیوں سے متعلق سابقہ اور موجودہ سرکاری افسران کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں۔ ٹی او آر کے تحت کمیشن کو ضابطہ دیوانی 1908 کے تحت اختیارات حاصل ہوں گے۔

ایمزٹی وی (تعلیم) آواز انسٹیٹیوٹ آف میڈیا اینڈ مینجمنٹ سائنسس کے زیرِ اہتمام کراچی پریس کلب میں مزاکرہ بعنوان”الیکٹرانک میڈیا اور حکومت کا کردار“ کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے مہماان خصوصی سابق وفاقی وزیر جاوید جبار، پروفیسر سیمی نغمانہ، پیمرا کونسل آف کمپلین کے چئیرمین پروفیسر انعام باری، سینئر صحافی مظہر عباس سمیت دیگر رہنماﺅں نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ تصورِ پاکستان کو پھیلانے میں الیٹرانک میڈیا کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے بہت سے مثبت پہلو نظر آتے ہیں .ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں جاری آمریت کے باوجود پہلی بار 1970 میں پاکستان ٹیلی وژن نے سیاسی رہنماﺅں کو ٹیلی وژن پر آکر بات کرنے کا موقع دیا۔میڈیا میں پائی جانے والی لاقانونیت کی ساری ذمہ داری ہم حکومت اور پیمرا پر نہیں ڈال سکتے بلکہ اس میں بہت بڑا کردار عدلیہ کا بھی ہے ، اس وقت 94کیسز سندھ ہائی کورٹ میں التوا کا شکار ہیں ، لیکن عدالتوں کی جانب سے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔
مذاکرے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی مظہر عباس کیا کہنا تھا کہ میڈیا میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت خطرناک رخ اختیار کرتی جا رہی ہے،اس وقت بہت سے چینلز ایسے ہیں جو سیاسی طور پر تقسیم ہیں جو ایک خطرناک صورتحال ہے 2018کے الیکشن تک یہ صورتحال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیشہ وارانہ طور پر ہم بہت پیچھے جاتے جارہے ہیں، اگر میڈیا کو واقع آزاد بنانا ہے تو اس کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا ہوگی۔
پیمرا کونسل آف کمپلین کے چئیرمین پروفیسر انعام باری نے پیمرا کو آزاد ادارہ بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا کو اسٹیٹ اسٹیبلشمنٹ ادارہ ہونا چاہیے لیکن بد قستی سے پیمرا کو حکومتی ادارہ بنادیا گیا ہے، اور جب تک پیمرا کو آزاد ادارہ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک شفافیت کی امید نہیں کی جاسکتی جبکہ پروفیسر سیمی نغمانہ کا کہنا تھا اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیمرا کو عملی شکل فوجی حکومت میں ملی ،پیمرا کی اصل روح کو برقرار رکھنے کا سہرا اس وقت کی فوجی حکومت کو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس کو وقت کے ساتھ ساتھ مسخ کردیا گیا۔
مذاکرہ میں دیگر مقررین کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اصل میں مفادات کے ٹکراﺅ کی وجہ سے آج میڈیا تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے صحافت کی تعلیم و تربیت کے لیے ادارے بنانا وقت کی ضرورت ہے ایسی کونسلز بنائی جائیں جو میڈیا میں شفافیت کو یقینی بناسکیں ۔