ایمز ٹی وی (تجارت) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ بینک کھاتوں سے لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کی وجہ سے زیر گردش کرنسی کی شرح نمو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ کرنسی کی شرح نمو میں اس قدر اضافہ سقوط ڈھاکہ کے وقت دیکھا گیا تھا۔ عوام بینکوں میں رقوم رکھنے سے اجتناب کررہے ہیں ۔ عوام لین دین کیلیے نقد رقوم کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ کاروباری لین دین کیلیے 25ہزار اور 40ہزار روپے مالیت کے بانڈز استعمال کیے جارہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ معاشی جائزہ رپورٹ برائے سال 2015-16میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بینک کھاتوں سے کراس چیک، ڈیمانڈ ڈرافٹ، پے آرڈرز سمیت دیگر انسٹرومینٹس کے ذریعے لین دین پر نان فائلرز کیلیے 0.4فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے سبب عوام بینک انسٹرومینٹس کے بجائے نقد رقوم کو ترجیح دے رہے ہیں ۔
جس کی وجہ سے مالی سال 2015-16کے اختتام پر زیر گردش کرنسی کی شرح نمو 30.5فیصد کی سطح تک پہنچ چکی ہے جو پاکستان میں کسی بھی سال کے دوران زیر گردش کرنسی کی بلند ترین شرح نمو ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق کرنسی کی شرح نمو میں اس قدر اضافہ سقوط ڈھاکہ کے بعد کی صورتحال میں دیکھا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق عوام بینک کھاتوں کے بجائے نقد رقوم کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے زیر گردش کرنسی اور بینکوں کے ڈپازٹس کا تناسب بھی مالی سال 2012-13 کے بعد کی غیرمعمولی سطح پر آگیاہے۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت میں زر کی رسد کی رفتار بڑھنے کے باوجود بینکاری نظام میں کم زر واپس آرہا ہے اور بیشتر اقتصادی لین دین بینکوں سے بالا ہی کیا جارہا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق غیر رسمی معیشت میں تیزی اس رجحان کا ایک جزوی سبب ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ عوام رسمی لین دین کیلیے بھی اب نقد رقوم کے استعمال کی جانب مائل ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق بینک لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے بعد بڑی مالیت کے بانڈز میں عوامی سرمایہ کاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔