جمعرات, 21 نومبر 2024


ایک سبق آموز سوچ

  • ایک سبق آموز سوچ

    کسی ملک میں ایک قانون تھا کہ وہ ایک سال بعد اپنا بادشاہ بدل لیتے۔ اس دن جو بھی سب سے پہلے شہر میں داخل ہوتا تو اسے بادشاہ منتخب کر لیتے اور اس سے پہلے والے بادشاہ کو ایک بہت ہی خطرناک اور میلوں پھیلے جنگل کے بیچوں بیج چھوڑ آتے جہاں بے چارہ اگر درندوں سے کسی طرح اپنے آپ کو بچا لیتا تو بھوک پیاس سے مر جاتا نہ جانے کتنے ہی بادشاہ ایسے ہی سال کی بادشاہی کے بعد جنگل میں جا کر مر کھپ گئے اس دفعہ شہر میں داخل ہونے والا نوجوان کسی دور دراز کے علاقے کا لگ رہا تھا سب لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے مبارک دی اور اسے بتایا کہ آپ کو اس ملک کا بادشاہ چن لیا گیا ہے اور اسے بڑے اعزاز کے ساتھ محل میں لے گئے ، وہ حیران بھی ہوا اور بہت خوش بھی تخت پر بیٹھتے ہیں اس نے پوچھا کہ مجھ سے پہلا بادشاہ کہاں گیا تو درباریوں نے اسے اس ملک کا قانون بتایا کہ ہر بادشاہ کو سال بعد جنگل میں چھوڑ دیاجاتا ہے اور نیا بادشاہ چن لیا جاتا ہے یہ سنتے ہیں وہ ایک دفعہ تو پریشان ہوا لیکن پھر اس نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس جگہ لے کر جاؤ جہاں تم بادشاہ کو چھوڑ کر آتے ہو۔ درباریوں نے سپاہیوں کو ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کو وہ جگہ دکھانے جنگل میں لے گئے ، بادشاہ نے اچھی طرح اس جگہ کا جائزہ لیا اور واپس آگیا اگلے دن اس نے سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ میرے محل سے جنگل تک ایک سڑک تعمیر کی جائے اور جنگل کے بیچوں بیج ایک خوبصورت محل تعمیر کیا جائے جہاں پر ہر قسم کی سہولت موجود ہو اور محل کے اردگر خوبصورت باغ لگائے جائیں بادشاہ کے حکم پر عمل ہوا اور تعمیر شروع ہوگئی ، کچھ ہی عرصہ میں سڑک اور محل بن کر تیار ہوگئے ایک سال کے پورے ہوتے ہی بادشاہ نے درباریوں سے کہا کہ اپنی رسم پوری کرو اور مجھے وہاں چھوڑ آؤ جہاں مجھ سے پہلے بادشاہوں کو چھوڑ کے آتے تھے درباریوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت آج سے یہ رسم ختم ہوگئی کیونکہ ہمیں ایک عقل مند بادشاہ مل گیا ہے ، وہاں تو ہم ان بےوقوف بادشاہوں کو چھوڑ کر آتے تھے جو ایک سال کی بادشاہی کے مزے میں باقی کی زندگی کا بھول جاتے اور اپنے لیے کوئی انتظام نہ کرتے ، لیکن آپ نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا کہ آگے کا خوب بندوبست فرمالیا۔ ہمیں ایسے ہی عقل مند بادشاہ کی ضرورت تھی اب آپ آرام سے ساری زندگی ہم پر حکومت کریں اب آپ لوگ سوچیں کہ کچھ دن بعد ہمیں بھی یہ دنیا والے ایک ایسی جگہ چھوڑ آئیں گے تو کیا ہم نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں اپنا محل اور باغات تیارا  کرلیے ہیں یا بے وقوف بن کر اسی چند روزہ زندگی کی مزوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایک بہت لمبی سوچ برباد کر رہے ہیں پھر پچھتانے کی مہلت نہیں ملے گی ۔

     

    تحریر: ایک سوچ

     

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment