ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) ایک بھارتی ڈاکٹر لڑکیوں کو بچانے کے لیے انوکھے مشن پر ہیں وہ اپنے ہسپتال میں ایسی حاملہ خواتین سے زچگی کی کوئی فیس نہیں لیتے جن کے ہاں بچی کی ولادت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر گنیش راکھ کا کہنا ہے کہ ایسے ملک میں جہاں روایتی طور پر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے لڑکیوں کے حوالے سے صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے یہ ان کی ایک ادنٰی سی کوشش ہے۔
سنہ 1961 میں بھارت میں سات سال سے کم عمر ہر 1000 لڑکوں کے لیے 976 لڑکیاں تھیں۔ جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اب یہ تعداد کم ہو کر 914 رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر گنیش نے سنہ 2007 میں مغربی بھارت کے شہر پونے میں ایک چھوٹا سا ہسپتال شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی عورت زچگی کے لیے آتی ہے تو اس کے ساتھ رشتہ دار اس امید پر آ جاتے ہیں کہ لڑکا ہوگا۔ ’ایک ڈاکٹر کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ مریض کے رشتہ داروں کو یہ بتانا کہ مریض مر چکا ہے لیکن میرے لیے یہ اتنا ہی مشکل ہے خاندانوں کہ یہ بتایا کہ ان کے ہاں لڑکی کی پیدائش ہوئی ہے۔‘
’اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو جشن مناتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں لیکن اگر بیٹی پیدا ہو تو وہ ہسپتال سے چلے جاتے ہیں۔ ماں رونے لگتی ہے اور پھر خاندان والے فیس میں رعایت طلب کرنے لگتے ہیں۔ وہ بہت مایوس ہوتے ہیں۔‘ ’مجھے کئی مریضوں نے بتایا کے انھوں نے علاج کروایا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ لڑکا ہی پیدا ہو۔ میں حیران تھا کیونکہ میں ایسے کسی علاج کے بارے میں نہیں جانتا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کسی سادھو بابا سے رابطہ کیا ہے جس نے ماں کی ناک میں کوئی دوائی ڈالی جس کے بعد یہ یقینی ہے کہ بیٹا ہی ہوگا۔‘
سنہ 2011 کی مردم شماری ڈاکٹر گنیش کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی انھیں ادراک ہوا کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے مادہ حمل کو گرانے کو قتلِ عام کے مترادف قرار دیا جس کے بعد نریندر مودی نے اسے ’قومی شرمندگی‘ قرار دے کر لڑکیوں کو بچانے کے لیے اس کے خلاف تحریک چلانے کا مطالبہ کیا۔ تین جنوری سنہ 2012 کو ڈاکٹر گنیشن راکھ نے بچیوں کی پیدائش کو بچانے کے لیے اپنی مہم شروع کی۔ ’میں نے فیصلہ کیا کہ میں لڑکی کی پیدائش پر کوئی فیس نہیں لوں گا۔ اور چونکہ لڑکوں کی پیدائش پر خاندان والے جشن مناتے ہیں اس لیے ہم لڑکی کی پیدائش پر جشن منائیں گے۔‘
گذشتہ چار برس میں اس مہم کے آغاز کے بعد سے ان کے ہسپتال میں 454 لڑکیوں کی پیدائش ہوئی ہے اور انھوں نے کسی والدین سے فیس نہیں لی۔ پونے سے 50 کلو میٹر دور ایک دیہات سے آنے والے والدین کے ہاں بھی بچی کی پیدائش ہوگئ ہے۔ ابھی بچی کا نام نہیں رکھا گیا لیکن ہسپتال کا عملہ اس ایک دن کی بچی کو اینجل یعنی فرشتہ پکارنے لگا ہے۔ ڈاکٹر گنیشن اور ہسپتال کے عملے نے والدین کو پھولوں کا تحفہ دیا، موم بتیاں جلائی گئیں اور چاکلیٹ اور کیک لائے گئے۔ ہسپتال کے عملے اور خاندان کے لوگوں نے تالیوں کی گونج میں ایجنل کے لیے برتھ ڈے کا گیت گایا گیا۔
راہل دیہاڑی پرمزدوری کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’وہاں گھر کے قریب بھی ہسپتال ہیں لیکن ہم یہاں آئے کیونکہ ڈاکٹر گنیش فیس نہیں لیتے۔‘ ان کی والدہ الکا شاجی کہتی ہے’وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔‘ڈاکٹر گنیش کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹر بننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے بلکہ انھیں تو ایک ریسلر بننا تھا۔ ’لیکن میری والدہ نے میری حوصلہ شکنی کی اور کہا کہ تم بہت زیادہ کھانے لگو گے دوسروں کا کھانا بھی کھا جاؤ گے۔‘
ان کا خدشہ جائز تھا۔ ان کے والد ایک اناج کے بازار میں قلی تھے۔ وہ کمر پر بوریاں لاد کر لے جاتے۔ ان کی ماں گھروں میں برتن دھوتیں اور بمشکل ڈاکٹر گنیشن اور ان کے دو بھائیوں کا پیٹ پالتیں۔‘ اس لیے انھوں نے ڈاکٹر بننے پر دھیان دیا۔ بچی کی پیدائش پر فیس نہ لینے کا فیصلہ آسان نہیں تھا ان کی اہلیہ اور بھائیوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ڈاکٹر گنیش کی اہلیہ ترپتی رکھ کا کہنا ہے کہ ’ہم معاشی طور پر زیادہ خوشحال نہیں ہیں۔اس لیے جب انھوں نے اپنے فیصلے کے بارے میں مجھے بتایا تو میں پریشان ہوئی کہ گھر کیسے چلے گا۔‘
لیکن ان کے والد آدیناتھ راکھ نے ان کا ساتھ دیا اور دل سے اس فیصلے کی حمایت کی۔ ڈاکٹر گنیشن راکھ کہتے ہیں ’انھوں نے مجھے اچھا کام جاری رکھنے کو کہا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ پھر سے قلی کا کام کر لیں گے۔‘ آج ان کی کوشش کا ثمر ملنے لگا ہے۔ وزرا اور حکام ان کے کام کو سراہنے لگے ہیں اور بالی وڈ سٹار امیتابھ بچن نے انھیں ’اصلی ہیرو‘ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر گنیش کے بقول ’میں نے ایک چھوٹی سے چیز شروع کی تھی مجھے نہیں معلوم تھا کے اسے اس طرح لیا جائے گا۔ لیکن بعض چھوٹی چیزیں ذہنوں پر بڑا اثر ڈالتی ہیں۔‘ گذشتہ چند ماہ میں انھوں نے ملک کے دیگر حصوں میں ڈاکٹروں سے رابطہ کیا ہے کہ وہ کم سے کم ایک مفت زچگی کریں جس پر کئی ڈاکٹرز نے ان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
وہ پونے کی سڑکوں پر کئی مارچ کروا چکے ہیں جس میں وہ لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیٹی ایک بیٹے کی نسبت زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔وہ کہتے ہیں’ میں لوگوں اور ڈاکٹرز کے رویے بدلنا چاہتا ہوں۔ جس دن لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر جشن منائیں گے میں پھر سے فیس لینا شروع کر دوں گا۔ ورنہ میرا ہسپتال کیسے چلے گا؟‘