ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) ایک آسٹریلوی تنظیم کی طرف سے کئے گئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں ساڑھے چار کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی صورت میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آسٹریلیا کی ’واک فری فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے جاری کی گئی 2016 گلوبل سلیوری انڈیکس میں دنیا کے 167 ممالک کی آبادی میں غلامی کی زندگی گزارنے والوں کے تناسب کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ جدید غلامی شمالی کوریا، ازبکستان، بھارت اور قطر میں پائی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا میں سرکاری منظوری سے جیلوں کے مشقتی کیمپوں کے وسیع نظام کے ذریعے جبری مشقت لینے اور عورتوں کو زبردستی شادیوں اور چین اور دیگر پڑوسی ممالک میں جنسی استحصال پر مجبور کیے جانے کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ازبکستان میں حکومت کپاس کی فصل کی سالانہ کٹائی کے دوران اپنے شہریوں کو جبری مشقت پر مجبور کرتی ہے۔
وہ ممالک جن میں جدید غلامی کے شکار افراد کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے، ان میں بھارت سرفہرست ہے۔ دوسرے نمبر پر چین، تیسرے پر پاکستان، چوتھے پر بنگلہ دیش جبکہ ازبکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ان پانچ ممالک میں سے کئی مغربی یورپ، جاپان، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا کی مارکیٹوں کے لیے اشیائے صرف کی پیداوار کے لیے کم لاگت افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے دیے گئے اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ وہاں اندازاً 21 لاکھ 34 ہزار نو سو افراد غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 167 ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔
بھارت میں جدید غلامی کی زندگی گزارنے والوں کی تعداد کا تخمینہ ایک کروڑ 83 لاکھ سے زائد لگایا گیا ہے جبکہ عالمی درجہ بندی میں بھارت کا نمبر چوتھا ہے۔تاہم رپورٹ کے بقول پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی حکومت غلامی کو ختم کرنے کے لیے زیادہ فعال ہے اور اس سلسلے میں اس نے کئی اقدامات بھی کیے ہیں۔ رپورٹ کے تخمینے کے مطابق چین میں لگ بھگ 34 لاکھ افراد جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
جن مملک میں ان کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے کم جدید غلامی پائی جاتی ہے ان میں لیگزمبرگ، آئرلینڈ، ناروے، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، سویڈن، بیلجیئم، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ ممالک زیادہ خوشحال ہیں، یہاں تنازعات کی سطح کم اور حکومتیں جدید غلامی کو ختم کرنے کی زیادہ خواہاں ہیں۔
افغانستان، عراق، لیبیا، صومالیہ اور شام میں جاری جنگوں اور حکومت کے افعال میں شدید خلل کے باعث اس رپورٹ میں ان ملکوں کے اعدادوشمار شامل نہیں کیے گئے۔ گلوبل سلیوری انڈیکس کی ویب سائیٹ پر بتایا گیا ہے کہ جرم کی مخفی نوعیت اور متاثرین کی شناخت کم ہونے کے باعث اعدادوشمار کا اندازہ لگانا خاصا مشکل تھا۔
تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے 2014 سے اب تک دنیا بھر میں 25 گیلپ سروے کرائے ہیں جن میں 28,000 افراد نے 52 زبانوں میں جدید غلامی سے متعلق سوالات کے جوابات دیے۔ رواں سال بھارت میں ریاستوں کی سطح پر مزید سروے کیے گئے جس کے بعد سروے میں شامل افراد کی تعداد 42,000 جبکہ زبانوں کی تعداد 53 ہو گئی۔ جدید غلامی کی موجودگی کا تخمینہ انہی جائزوں سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار سے لگایا گیا ہے۔