منگل, 30 اپریل 2024

Displaying items by tag: diseases

ایمزٹی وی(صحت)سرکہ، ادرک، لہسن اور لیموں پانی موسم برسات میں پیدا ہونیوالی بیماریوں سر درد، بخار، پیٹ درد، قے، متلی، دست، بھوک کی کمی، ڈی ہائیڈریشن اور گیسٹرو کا بہترین علاج ہیں۔ برسات میں چند احتیاطوں سے اس موسم کو باعث رحمت بنایا جاسکتا ہے، موسم برسات میں گرمی اور رطوبت کی زیادتی کی وجہ سے مضر اور خطرناک جراثیم کی افزائش میں تیزی آجاتی ہے، جس سے موسمی اور متعدی بیماریاں نمودار ہوتی ہیں، سر درد، بخار، پیٹ درد، قے، متلی، دست، بھوک کی کمی، ڈی ہائیڈریشن، گیسٹرو اس میں قابل ذکر ہیں، ان امراض کی وجہ آلودہ پانی، گلے سڑے پھلوں کا استعمال اور ناقص خوراک ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ موسم برسات کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کیلئے پانی کو 10 منٹ اسٹیل کے برتن میں اُبال کر استعمال کریں، جسمانی صفائی کا خاص خیال رکھیں، دن میں کم از کم ایک بار صابن سے اچھی طرح ضرور نہائیں، صاف لباس پہنیں، گھر اور گلی محلے کی صفائی کا خیال رکھتے ہوئے ان مقامات پر پانی ہرگز جمع نہ ہونے دیں۔

ماہرین کے مطابق موسم برسات کے دوران گھر میں جراثیم کش ادویات کا اسپرے کریں یا قدیم گھریلو ہربل جراثیم کش اسپرے یعنی حرمل، گوگل کی دھونی دیں، بازاری کھانوں یا کھلے عام فروخت کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء سے پرہیز کریں، سبزیوں اور پھلوں کو اچھی طرح دھو کر استعمال کریں، نرم اور زود ہضم غذا کھائیں، باسی اشیاء سے مکمل پرہیز کریں، زیادہ کھانا نہ کھایا جائے، روم کولر کا استعمال اور کھلے آسمان تلے سونا نقصاندہ ہے اس لئے کہ نم دار ہوا بدن کے درجہ حرارت کو مناسب نہیں رہنے دیتی اور بخار کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، نیز جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکہ، ادرک، لہسن اور لیموں پانی کا استعمال موسم برسات کی بیماریوں کا بہترین علاج ہے، اس موسم کی بیماریوں میں نزلہ، زکام، کھانسی، انفلوئنزا، گیسٹرو، ہیضہ، پیچش، اسہال، بدہضمی، پھوڑے، پھنسیاں، خارش، قے، متلی، آشوب چشم شامل ہیں۔

ایمزٹی وی(صحت)اگر آپ سارا دن دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں تو آپ کو موٹاپے اور ہائی بلڈ پریشر سمیت کئی جان لیوا بیماریوں کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ اپنے معمولات میں روزانہ صرف ایک گھنٹے تک تیز قدموں سے پیدل چلنے کی عادت بھی شامل کرلیں تو ان تمام خطرات سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

یہ آسان سا مشورہ ’’دی لینسٹ‘‘ نامی مشہور طبی جریدے میں شائع شدہ ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں دیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے دوران 10 لاکھ سے زائد بالغ افراد کا مطالعہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ روزانہ کم از کم 8 گھنٹے تک بیٹھنے کے نتیجے میں ناگہانی موت کا خطرہ 60 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ’’نشستی طرزِ حیات‘‘ (sedentary lifestyle) سے لوگوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں جو تمباکو نوشی کے خطرات سے کچھ کم نہیں جب کہ مسلسل کئی گھنٹوں تک بیٹھے رہنے کی وجہ ناگہانی موت کی شرح موٹاپے سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

بظاہر آسان سے اس مشورے پر عمل کرنا بھی بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ تھوڑی دیر تک پیدل چلنا بھی ہم میں سے اکثر کو ناگوار گزرتا ہے۔ مثلاً اس سے بہت پہلے صحت کے برطانوی اداروں نے عوامی سطح پر یہ مشورہ جاری کیا تھا کہ بہتر صحت کے لیے روزانہ آدھے گھنٹے تک پیدل چلنا چاہیے لیکن اس پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی۔ لینسٹ کی رپورٹ میں یہ اضافی مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ ایک گھنٹے تک مسلسل پیدل چلنے کے بجائے اگر ہر ایک گھنٹے کے دوران صرف 5 منٹ تک تیز قدموں سے پیدل چل لیا جائے اور لنچ ٹائم پر اور شام کے وقت (اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے) کچھ ہلکی پھلکی ورزشیں بھی کرلی جائیں تو دن بھر کی چہل قدمی اور ورزش کا کوٹا پورا کیا جاسکتا ہے۔ پیدل چلنے کے بجائے اتنی ہی دیر تک سائیکل بھی چلائی جاسکتی ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)کٹھل انتہائی لذیذ وزنی پھل ہے۔ یہ عام طور پر بیل کی شکل میں زمین کے قریب پیدا ہوتے ہیں لیکن پانچ سے پینتیس کلو وزنی پھل درخت پر بھی لگتا ہے۔ درخت کے تنے کیساتھ ساتھ اگنے والے اس پھل کو اردو میں کٹھل اور انگریزی میں جیک فروٹ کہلاتا ہے اس کا چھلکا سخت لیکن گودا قدرے نرم اور میٹھا ہوتا ہے۔ کھٹل کے درخت کو کئی سال بعد پھل لگتا ہے۔

گرم اور نم موسم میں اگنے والے اس پھل کے جام اور مربے بھی بنائے جاتے ہیں۔ کھٹل بنگلہ دیش کا قومی پھل ہے جہاں کچے کٹھل کا سالن بھی بنایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کٹھل سے کئی بیماریوں کا علاج بھی ہوتا ہے جن میں آنتوں کی بیماریوں سے شفاء قابل ذکر ہے۔ جناح باغ لاہور میں اس منفرد پھل کے چند درخت موجود ہیں۔ یہ پھل سال میں ایک مرتبہ لگتا ہے اور جون میں بننے والے کچے کھٹل اگست کے آخر میں پک کر کھانے کیلیئے تیار ہو جاتے ہیں۔

ایمزٹی وی(صحت) طویل تحقیق کے بعد ماہرین نے پیدائشی نقائص والے بچوں میں اس خرابی کی اہم وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلیاتی (سیلولر) تناؤ اور ماں کے پیٹ میں موجود بچے میں ہرسطح تک آکسیجن میں کمی سے طرح طرح کے نقائص پیدا ہوسکتےہیں۔

آسٹریلیا کےوکٹر چینگ انسٹی ٹیوٹ کےماہرین کے مطابق خلیاتی سطح پرتناؤ سےہم جان سکتےہیں کہ اس سے بچوں میں پیدائشی طور پر دل، کمر کے مہروں اور گردوں کے پیدائشی امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے امراضِ قلب سب سے عام ہیں جو 100 میں سے ایک بچے کو لاحق ہوسکتا ہے، لیکن ان میں ماحولیاتی آلودگی اور جینیاتی پہلو بھی شامل ہوتےہیں، یہ تحقیق ڈاکٹر سیلی ڈُن ووڈی نے کہ ہے اور انہوں نے بیضہ ( ایمبریو) بننے کےدوران آکسیجن کی کمی بیشی پردل کی افزائش پر تحقیق کی ہے۔

ماہرین کے مطابق تمباکو نوشی کےعلاوہ ماں کا بڑھتا ہوا بلڈ پریشر، بہت ذیادہ بلندی پر رہنےوالی خواتین، الجھی ہوئی آنول نال اور کاربن مونوآکسائیڈ سے بھی ماں کے پیٹ میں موجود ابتدائی بچے کی نشوونما میں نقائص پیدا ہوسکتےہیں۔ اس نظریئے کو چوہوں پر آزمایا گیا جس میں چوہوں کو ایک خانے میں رکھا گیا جہاں 8 گھنٹے تک 5.5 سے 21 فیصد تک آکسیجن کی کمی رکھی گئی۔

اس کے بعد چوہوں کے بچے قلبی امراض کے ساتھ پیدا ہوئے اور معلوم ہوا کہ خلیاتی سطح پر آکسیجن کی کمی سے نومولود امراضِ قلب کے شکارہوسکتے ہیں۔ بیضے کی تشکیل کے وقت ان کے خلیات کو مطلوبہ آکسیجن نہ ملے تو خلیات خاص پروٹین بنانا بند کردیتےہیں جو دل بنانے میں ضروری ہوتےہیں اور اس طرح دل پوری طرح نہیں بن پاتا، ماہرین کے مطابق وائرل انفیکشن، درجہ حرارت میں کمی ، آلودگی اور ماں کی ناقص خوراک بھی بچے کے نقائص کی وجہ بن سکتی ہے۔

ایمزٹی وی (تعلیم) گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں جگر کی مفت پیوندکاری کا آغاز کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق تین سو ملین روپے سے قائم جگر کی پیوندکاری کے مرکز میں سات اپریل سے آپریشن کو عمل شروع ہوگا۔اس حوالے سے گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے پرنسپل رحیم بخش بھٹی نے میڈیا کو بتایا کہ سندھ میں جگر کا یہ پہلا مرکز ہوگا جبکہ گمبٹ میں جگر کی پیوند کاری مفت ہوگی اور مریضوں سے کوئی پیسہ نہیں لیاجائے گا۔اس حوالے سے ان کا مزید کہناتھا کہ سات اپریل سے پہلے مرحلے میں چھ مریضوں کی جگر کی پیوندکاری جرمن ڈاکٹر وں کی نگرا نی میں شروع ہوگی اور ہر دوسرے روز ایک مریض کی جگر کی پیوند کاری کا آپریشن ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جگر کی پیوند کاری کے تین سو مریض گمس میں رجسٹرڈ کئے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہناتھا کہ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں نہ صرف جگر کی پیوند کاری کی جائے گی بلکہ جرمن ماہر ڈاکٹر چروسٹوبروچ، ڈاکٹر ایلن ملو موٹیماں ، ڈاکٹر اوتی نیما نفلو، ڈاکٹر الیون بورنن ، مقامی ڈاکٹروں اور عملہ کو جگر کی پیوند کاری کی تربیت بھی دیں گے۔

ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک)برطانیہ میں کی جانے والی تحقیق کے سربراہ اور یونیورسٹی آف ہل میں دل اور سانس کی بیماریوں کے شعبہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کھانسی میں چاکلیٹ کھانے سے کھانسی جاتی رہتی ہے اور وہ کھانسی پر کئی سال کی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور ان کے پاس اس کے ٹھوس ثبوت بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک اہم ثبوت یہ ہے کہ اس وقت برطانیہ میں کھانسی کا سب سے زیادہ مؤثر سمجھا جانے والے سیرپ میں کوکا شامل کیا گیا ہے۔ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جو مریض کھانسی کے دوران ایسی ادویات کا استعمال کرتے ہیں جن میں چاکلیٹ موجود ہوتی ہے وہ اس بیماری سے تیزی سے اور اکثر اوقات تو صرف دو دن میں چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔ تحقیق کے دوران 163 مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور اس کے نئائج حیرت انگیز تھے تاہم ان نتائج کو آئندہ سال پیش کیا جائے گا۔ چاکلیٹ سے متعلق ایمپریل کالج آف لندن میں کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کوکا میں پائی جانے والی تھیوبرومائن ایسا عنصر ہے جو کھانسی کو فوری طور پر کم کرنے میں مدد گار ہوتا ہے اور اکثر کھانسی کی ادویات میں اسے دیگر اجزا کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے۔ ریسرچرزکا کہنا ہے کہ کھانسی کی نئی ادویات میں چاکلیٹ کی بڑی مقدار موجود ہے اور لوگوں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہیں اور صرف 2 دن میں کھانسی سے نجات مل جاتی ہے، یہ ادویات انسانی دماغ کی رگوں گلے تک آتی ہیں اور انہیں محفوظ بناتی ہیں تاہم گرم چاکلیٹ کو پینے سے اس کے مؤثر ہونے میں کمی آجاتی ہے کیوں کہ یہ مرکب گلے کی شریانوں پر ٹچ نہیں ہوتا۔ محققین کا کہنا ہے کہ چاکلیٹ کو کھانسی کے دوران رفتہ رفتہ کھانے سے بھی فرق پڑتا ہے تاہم چاکلیٹ دیگر اجزا کے ساتھ مل کر مزید مؤثر ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ سوچ اب پرانی ہو چکی کہ کھانسی خشک یا گیلی یا پھر کسی اور قسم کی ہوتی ہے بلکہ کھانسی کی ایک ہی قسم ہے اور یہ کھانسی سانس کی اوپری نالیوں کے متاثر ہونے سے جنم لیتی ہے اور اس کے ساتھ فلو اور نزلہ بھی ہوجاتا ہے جب کہ انفیکشن کے لحاظ سے خشک یا گیلی کھانسی میں کوئی فرق نہیں اور دونوں ہی بلگم خارج کرتی ہے۔ چاکلیٹ سے بنی ادویات ہر طرح کی کھانسی میں مؤثر اور مفید ہوتی ہیں۔

ایمز ٹی وی (ہیلتھ ڈیسک) جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹرکی ڈاکٹر صغریٰ پروین نے کہا کہ نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 40 ہزار سے زائد خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں اس بیماری کی منتقلی میں موروثیت کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس مرض کی فوری اور ابتدائی تشخیص اور ذاتی جانچ (مریض کے کیس ہسٹری ) سے آگہی کو نہایت ضروری ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیا اور پی ایس ایف کے اشتراک سے منعقدہ بریسٹ کینسر پر آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹرکی ڈاکٹر صغریٰ پروین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر کی یہ قسم بڑی عمر اورشادی شدہ خواتین کے علاوہ لڑکیوں میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ڈاکٹرصغریٰ پروین نے کہا کہ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نہ ہونے اور معاشرتی رویوں کی وجہ سے خواتین کے لیے بیماری کا عدم اظہار بھی مسائل کا پیش خیمہ بن رہاہے بالخصوص دیہی علاقوں میں عدم شعور کے باعث یہ مرض پھیل رہاہے لیکن بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص سے اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ قائم مقام رئیس کلیہ علوم پروفیسر ڈاکٹر شمیم اے شیخ نے اس طرح کے سیمینارزکے انعقاد کو وقت کی اہم ضرورت قراردیتے ہوئے کہا کہ خواتین بریسٹ کینسر کے ابتدائی آثار نمودارہونے کے باوجود کسی سے اس مرض پر بات نہیں کرتیں تاآنکہ یہ شدت سے سرایت نہ کرلے اور اس وقت تک ’’ بہت دیر ‘‘ ہوچکی ہوتی ہے جب وہ معالج سے رجوع کرتیں ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شمیم اے شیخ کا کہنا تھا کہ ہمارے خطے میں اس بیماری کے لاعلاج ہونے کی بڑی وجہ علم کی کمی اورمشرقی حیاء وشرم ہوتی ہے بریسٹ کینسر مردوں کوبھی لاحق ہوسکتاہے اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

ایمز ٹی وی(ہیلتھ ڈیسک)دمہ واحد ایک ایسی بیماری ہے جو بچوں میں ترقی پذیر ممالک سےزیادہ ترقی یافتہ ممالک میںزیادہ پائی جاتی ہے۔آج اس پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے ۔لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی اور پاکستان چیسٹ سوسائٹی ہائی نون لیبارٹری کی جانب سے دمہ پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا ماہر ین میں صدر پاکستان چیسٹ سوسائٹی پروفیسر ڈاکٹر کامران خالد چیمہ کا کہناتھا کہ پاکستا ن میں ہر 11 بچوں میں سے 1بچہ دمے کا شکار ہوتا ہے جبکہ امریکہ میں 7 بچوں میں سے 1بچہ دمے کا شکار ضرور ہوتا ہے اس کی بہت ساری ایسی وجوہات ہیں جن کو سمجھتےہوئے ان پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے چیئر مین واصف ناگی کا کہناتھا کہ ایسے ممالک جہاں جانوروں کو گھروں میں پالاجاتا ہے ان کے ساتھ پیار کیا جاتا ہے ان جگہوں پر دمہ ہونے کے خدشات بہت زیادہ ہوتےہیں

Page 3 of 3