ایمز ٹی وی (تعلیم/کراچی) جامعہ کراچی کے ماہرین نے تھور زدہ اور ناقابلِ کاشت زمین پر ایک خاص قسم کا چارہ اگاکر انہیں جانوروں کو کھلاکر مویشیوں کا تجزیہ کیا ہے۔
اس تحقیق کے بعد نہ صرف چارہ اگانے کا ایک نیا طریقہ پیٹنٹ کیا گیا ہے بلکہ اس سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ کِلر ذدہ زمین کو سرسبز و شاداب بنایا جاسکتا ہے اور خصوصاً اس سے سندھ اوربلوچستان کے ساحلی علاقوں پر لائیواسٹاک کے فروغ میں بہت مدد مل سکے گی۔انسٹی ٹیوٹ آف ہیلوفائٹس یوٹیلائزیشن ( آئی ایس ایچ یو) کے ماہرین نے بے آب و گیاہ ، بنجر اور کھاری زمین کو نہ صرف چارہ اگانے کے لیے کامیاب تجربات کئے ہیں بلکہ اس سے ادویات ، کھانے کا تیل اور بایوایندھن حاصل کرنے پر بھی کام کیا ہے۔
اس کے لیے ماہرین کی ٹیم نے سندھ اور بلوچستان کے کئی بنجر اور تھور والے علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں موجود چرواہوں کی روایتی معلومات سے استفادہ کرکے ایک ہیلوفائٹ گھاس، پینی کم ٹرگیڈم‘ کا انتخاب کیا جو مویشیوں کے کھانے کے لیے اچھا چارہ ہے۔
واضح رہے کہ ہیلوفائٹس ایسے پودوں کی اقسام کو کہتے ہیں جو نمک ذدہ اراضی پر اگتے ہیں اور پاکستان میں ان کی درجنوں اقسام پائی جاتی ہیں جو پہلے ہی بہت سے کاموں میں استعمال ہورہی ہیں۔ ماہرین نے روایتی علم اور اپنے تجربے کی بنیاد پر چارہ اگانے کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس میں پینی کم کو درمیان میں اگایا اور اس کے اطراف میں ایک اور ہیلوفائٹ سوویڈا فروٹی کوزا کو اگا کر اس کی ایک باڑ سی بنادی ۔ اس طرح سوویڈا نے مٹی سے اضافی نمک جذب کرلیا تاکہ پینی کم کو کھانے کے قابل بنایا جاسکے۔
پینی کم فصل کے اطراف فروٹی کوزا کے پودے 50 سینٹی میٹر کےفاصلے پر لگائے گئے جس نے جانوروں کے چارے سے نمک کا ایک حد تک ختم کیا۔
اگلے مرحلے میں اس چارے کو بلوچستان کے شہر حب میں واقع ایک فارم کےمویشیوں کو کھلایا گیا۔ عام چارے کی بجائے بارش کے پانی اور نیم تھورزدہ اراضی پر اگائی گئی پینی کم کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر انہیں جانوروں کے سامنے رکھا گیا۔ جانوروں نے اسے رغبت سے کھایا۔ موسمِ سرما میں پینی کم ہیلوفائٹ کی گھاس 20 سے 30 دن میں ایک میٹر تک بڑھ جاتی ہے اور اسے گائےاور بکریوں کو کھلایا گیا تو غذائیت سے بھرپور اس چارے نے جانوروں کی مہنگی گھاس سےبھی بڑھ کر اچھے اثرات مرتب کئے۔ مختصراً ہیلوفائٹس کھاری زمین پر ایک سال میں 12 سے 14 مرتبہ فصل دیتے ہیں۔
آئی ایس ایچ یو کی سربراہ ڈاکٹر بلقیس گُل نے بتایا کہ پینیکم ٹرگیڈم نمک ذدہ زمینوں کے لیے مویشیوں کا بہترین متبادل چارہ ثابت ہوسکتی ہے۔ جب ہم نے اس پر افزائش پانے والے جانوروں کے گوشت کا جائزہ لیا تو تو وہ ذائقے میں بہتر اور کم چکنائی کا حامل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پینی کم چارہ اگانے کے اس نئے طریقے کو امریکن ایڈوانسمنٹ آف سائنس ( اے اے اے ایس) کے جریدے ’سائنس‘ نے ’ایڈیٹرچوائس‘ کا درجہ دیتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 60 لاکھ ہیکٹر اراضی پر نمک کا راج ہے اور وہاں کوئی اہم فصل نہیں اُگائی جاسکتی اور یوں ان زمینوں پر نمک کے ٹیلے بنے ہوئے ہیں۔ ’ اب ہم اس عمل کو تجارتی پیمانے پر انجام دینا چاہتے ہیں کیونکہ ہم نے پاکستان میں مویشیوں کو پلاسٹک کی تھیلیاں بھی کھاتے دیکھا ہے،‘ ڈاکٹر بلقیس نے بتایا۔ اس کے علاوہ ان کی ٹیم نے ڈیسموسٹیکیا بائپینیٹا نامی ایک اور ہیلوفائٹس پر بھی کام کیا ہے جو مویشیوں کےلیے بہترین چارہ بن سکتا ہے۔
یونیسکو چیئر 2009 میں آئی ایس ایچ یو کو پورے خطے کےلیے یونیسکو کی جانب ہیلوفائٹس چیئر کا اعزاز دیا گیا جو پاکستانی ماہرین کے کام کا بین الاقوامی اعتراف بھی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا میں ہیلوفائٹس کے لیے یہ پہلی چیئر بھی ہے۔ اس کے علاوہ مصر اور صومالیہ نے بھی اس ادارے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کی کارکردگی کے فائدہ اٹھانے کے معاہدے کئے ہیں۔ اس کےعلاوہ آئی ایس ایچ یو نے بہت سے ہیلوفائٹس سے کھانے کے تیل ، ادویات اور بایوفیول پر بھی کام کیا ہے۔
مثلاً سوویڈا فروٹی کوزا کو بطور بیکنگ سوڈا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سوویڈا مونوئیکا سے زخموں کا مرہم اور ہیپاٹائٹس کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔ بلتستان سے بلوچستان تک کے لوگ ہیلوفائٹس کی گوناگوں خوبیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ماہرین کی ایک اور ٹیم نے انکساف کیا ہے کہ فروٹی کوزا میں سرطان کے خلاف کئی اہم عامل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ نے اپنے رفقا کے ساتھ ملکر پورے ملک میں پائے جانے والے اہم ہیلوفائٹس کا ڈیٹابیس بھی تیار کیا ہے ۔ قدرت کے اس اہم تحفے کو ماضی میں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ چارے کی صورت میں اپنی اہمیت منواچکا ہے جس سے بلوچستان و سندھ کے ساحلی علاقوں میں مویشی فارمنگ کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوسکتا ہے۔