ایمزٹی وی(کراچی/ تعلیم)پیپلز پارٹی نے سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کے معاملے یکسر نظر انداز کر دیاہے جامعات کے نئے ترمیمی ایکٹ میں طلبہ یونین کے منتخب صدرکیلئے سینیٹ اور سینڈیکیٹ میں کوئی جگہ مختص نہیں کی گئی ہے۔پیپلزپارٹی کے حالیہ 10سالہ دور میں 15سے زائد نئی جامعات قائم کی گئی ہیں جبکہ 2013میں جامعات ایکٹ میں بھی ترمیم کی جا چکی ہے جس میں کی متنازع چیزیں بھی منظور کرائی گئی تھیں تاہم اس پر عمل درآمد تاحال نہیں ہوسکاہے جن میں تمام جامعات میں رجسٹرارور ناظم امتحانات کی تقرری کے ساتھ ساتھ صرف تین جامعات جن میں جامعہ کراچی، جامعہ این ای ڈی اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی شامل ہیں، ان کی داخلہ پالیسی کاکنٹرول بھی سندھ حکومت نے حاصل کر لیاتھا مگر اس پر حکومت عمل کرنے سے قاصر رہی اب پھر سندھ اسمبلی میں جامعات کا ترمیمی ایکٹ پیش ہورہا ہے جس میں اساتذہ کے مطالبے پر رجسٹرار اور ناظم امتحانات کی تقرری کا معاملہ تو واپس جامعات کو دیا جا رہا ہے۔
تاہم جامعہ کراچی، جامعہ این ای ڈی اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی کا کنٹرول صوبائی حکومت اپنے کنٹرول میں رکھنے پر بضد ہے اس طرح جامعات نئے ترمیمی ایکٹ میں سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں طلبہ یونین کے منتخب صدر کے لئے بھی جگہ نہیں رکھی جارہی ہے جس کا مطلب ہے کہ بیوروکریسی طلبہ یونینوں کے انتخاب میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ یہ ترمیمی ایکٹ ایڈیشنل چیف سیکرٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈ محمد حسین سید کی زیرنگرانی تیار کیاگیا تھا جس میں اصل کردار 80سالہ ڈاکٹر ایس ایم قریشی نے ادا کیا ہے۔
یاد رہے کہ 1974ء کے ایکٹ میں سندھ کی تمام جامعات میں طلبہ یونینوں کو نمائندگی دی گئی تھی۔ایکٹ کے مطابق طلبہ یونین کا منتخب صدر اورالحاق شدہ جامعات کامشترکہ صدر دونوں سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے رکن ہوا کرتے تھے لیکن 1984میں طلبہ یونینوں پر پابندی کے بعد الیکشن نہیں ہوئے تاہم پرانی جامعات کے ایکٹ تاحال سینیٹ اور سنڈیکیٹ میں طلبہ یونین کے صدور کےنام موجود ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے اس 10سالہ دورمیں قائم ہونے والی کسی بھی جامعہ کے ایکٹ میں طلبہ کی نمائندگی نہیں ہے۔