Thursday, 28 November 2024


عدم توجہ کے باعث حیدرآباد تعلیم میں 40 ویں نمبر پر

ایمزٹی وی(تعلیم/حیدرآباد)حیدرآباد شہر کے 868 سرکاری اسکولوں میں سے 750 اسکول بنیادی سہولیات صاف پانی‘ بجلی‘ ٹوائلٹ‘ فرنیچر اور چاردیواری سے محروم ہیں‘ 66 ہائی اسکولز میں سے 13 ہائی اسکولز میں سائنس لیب نہ ہونے سے زیرتعلیم طلبہ وطالبات کیمسٹری‘ بائیولوجی ‘ فزکس اور دیگر مضمون کے تجربا ت سے محروم ہیں۔ تفصیلات کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سندھ کا دوسرا اور پاکستان کاآٹھواں بڑا شہر تعلیمی لحاظ سے 49ویں نمبر پر ہے۔ ماضی میں حیدرآباد شہر تعلیمی لحاظ سے صف اول کے شہروں میں شمار ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کی تعلیم کے شعبہ میں عدم دلچسپی اور تعلیم کے شعبہ کو مکمل طور پر نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے اندورن سندھ تو دور کی بات ہے آج سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد بھی تعلیم کے لحاظ سے 49 ویں نمبر پر ہے۔ حیدرآباد شہر میں مجموعی طور پر 868 سرکاری اسکولز ہیں جن میں سے 710 پرائمری اسکول ‘71 مڈل ‘5 ایلیمنٹری ‘66سیکنڈری اور 16 ہائر سیکنڈری اسکولز ہیں‘ 868 اسکولوں میں سے 264 اسکولوں میں صاف پانی کی سہولت میسر نہیں ہے جبکہ 121 اسکولوں کی چاردیواری اور 234 اسکول میں بجلی تک نہیں ہے جبکہ 131 اسکولوں میں ٹوائلٹ بھی نہیں ہے‘ اس طرح 868سرکاری اسکولو ں میں سے 750 اسکولوں میں طلبہ وطالبات کو بنیادی سہولیات ہی میسر

نہیں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حیدرآباد کے 66 ہائی اسکولوں میں سے 13 ہائی اسکول سائنس لیب سے محروم ہیں جہاں طلبہ وطالبات کیمسٹری ‘فزکس ‘بائیولوجی اور دیگر مضمون کے پریکٹیکل کرنے سے محروم ہیں۔ شعبہ تعلیم کی بہتری کےلئے کام کرنے والی سماجی تنظیم” علم و نیرون “ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر روہینہ ملک کا کہنا ہے کہ شعبہ تعلیم سندھ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں‘ روز بروز سرکاری اسکولز میں تعلیم کا شعبہ زبوںحالی کاشکار ہے‘ عمارتیں ہیں لیکن تعلیمی معیار نہیں۔ ایس اے ٹی اسکورز کی رپورٹ کے مطابق پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ و طالبات سائنس اور حساب کے امتحانات میں تقریباً 19 نمبر لے پاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 7 جولائی سے ”علم و نیرون “کی جانب سے ”الیکشن برائے تعلیم“ کے نعرے سے شہریوں میں آگہی مہم کا آغاز کیاجارہا ہے ‘ملک بھر میں انتخابات کا وقت قریب ہے‘ شہریوں کو چاہئے کہ وہ اپنے سابق اور مستقبل کے نمائندوں سے تعلیم سے متعلق سوال کریں۔

Share this article

Leave a comment