ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) سندھ ہائی کورٹ نے فلم مالک پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے فلم کی پورے ملک میں نمائش کی اجازت دے دی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی فلم مالک آٹھ اپریل کو ریلیز کی گئی تھی جس کی نمائش کے تین ہفتے کے بعد اس فلم پر وفاقی وزارتِ اطلاعات کی جانب موشن پکچرز آرڈیننس کی شق نو کے تحت 26 اپریل کو پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اس سے پہلے اس فلم کی برآمد پر بھی پابندی عائد کر کے بین الاقوامی نمائش روک دی گئی تھی۔
مالک کے ہدایت کار اور مرکزی کردار عاشر عظیم نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں قائم ڈویژنل بینچ نے متفقہ طور پر فلم مالک پر عائد پابندی یکسر ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس موقعے پر وفاق کے وکیل نے اس فیصلے پر اپیل کرنے کے لیے دس روز کی استدعا کی جو مسترد کر دی گئی۔ عاشر عظیم نے بتایا کہ مالک پاکستانی فلم انڈسٹری کی ترقی کی خاطر کئی سینیما گھروں میں آئندہ جمعے سے نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل عمل تھا مگر تقسیم کاروں اور سینیما مالکان نے پاکستانی فلمی صنعت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے ورنہ سینیماؤں میں جگہ نہیں تھی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے آٹھ اگست کو فلم کی برآمد پر پابندی عائد کی تھی تاہم وہ اس سے پہلے جولائی ہی میں فلم مالک کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ برآمد کر چکے تھے اس لیے ان ممالک میں اس فلم کی نمائش اگست میں کی گئی تاہم خلیجی ممالک میں اس فلم کو نمائش کے لیے پیش نہیں کیا جا سکا۔
سینسر بورڈ کے مطابق اس فلم میں متعدد جگہ پر وزیرِ اعلیٰ یا چیف منسٹر کا لفظ آیا تھا جو قابلِ اعتراض ہے
اس فلم کی کہانی ایک ایسے سابق ایس ایس جی کمانڈو کی ہے جو بعد ازاں اپنی ذاتی سکیورٹی کمپنی کھولتا ہے اور اسے ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری ملتی ہے تاہم وہ وزیر اعلیٰ ایک انتہائی بدعنوان شخص ہوتا ہے جو خواتین کی آبروریزی میں بھی ملوث ہوتا ہے اسی وجہ سے فلم کا ہیرو اسے مار کر خود کو پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔
اس سے پہلے سندھ سینسر بورڈ نے اس فلم کا سینسر سرٹیفکیٹ معطل کر دیا تھا کیونکہ سینسر بورڈ کے مطابق اس فلم میں متعدد جگہ پر وزیرِ اعلیٰ یا چیف منسٹر کا لفظ آیا تھا۔ شکایت کے بعد عاشر عظیم نے وہ لفظ ہٹایا دیا اور یہ فلم ریلیز کردی گئی تاہم اُسی شام وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے اس فلم پر پابندی عائد کر دی۔
وفاقی حکوت کا موقف تھا کہ اس فلم میں افغان جنگ کے ایک شدت پسند کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے پابندی کا سامنا ہے۔
عاشر عظیم نے بتایا کہ ان کی فلم نے پابندی سے پہلے تقریباً تین ہفتوں کے دوران چار کروڑ کا کاروبار کیا تھا۔