ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ)سروں کے بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 21 سال بیت گئے لیکن ان کی آواز کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔
عظیم قوال استاد نصرت فتح علی خان 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد کے قوال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اپنے بڑوں سے فن قوالی سیکھا اور خداداد صلاحیتوں کے باعث دنیائے قوالی میں خوب نام کمایا۔ استاد نصرت فتح علی خان نے فن قوالی میں اپنی مہارت کے سبب شہنشائے قوالی کا لقب پایا۔
نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف خاندان کے دیگرافراد کی گائی ہوئی قوالیوں سے ہوا۔ ’’حق علی مولا علی‘‘ اور ’’دم مست قلندرمست مست‘‘ نے انہیں شناخت عطا کی، موسیقی میں نئی جہتوں کی وجہ سے ان کی شہرت پاکستان سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گئی۔ بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995 میں ریلیز ہونے والی فلم’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ تھا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ کی بھی موسیقی ترتیب دی۔
نصرت فتح علی خان نے قوالی کے علاوہ صوفیانہ کلام، غزل اور کلاسیکل موسیقی میں بھی اپنے سروں کا جادو جگایا۔ انہوں نے بیرون ملک پرفارم کرکے گوروں کو بھی جھومنے پر مجبور کیا اور اپنے فن موسیقی کی روحانی کیفیات کے ذریعے پوری دنیا کو مرید بنائے رکھا۔
عالمی سطح پر جتنی شہرت انہیں ملی وہ شاید کسی اور موسیقار یا گلوکار کو نصیب نہیں ہوئی۔ بحثیت قوال ان کے 125 آڈیو البم ریلیز ہوئے جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے، ان البمز میں ’’دم مست قلندر مست ‘‘، ’’علی مولا علی‘‘، ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے‘‘، ’’میرا پیاگھر آیا‘‘،’’اللہ ہو اللہ ہو‘‘، ’’کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا‘‘ سمیت کئی یادگار قوالیاں اور گیت شامل ہیں۔
نصرت فتح علی خان نے بالی ووڈ کی کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کے ساتھ آواز کا جادو بھی جگایا جس میں ’’اور پیار ہوگیا‘‘، ’’کچے دھاگے‘‘ اور ’’کارتوس‘‘ شامل ہیں۔ نصرت فتح علی خان کے فن کی تعریف ملکہ ترنم نورجہاں، شنہشاہِ غزل مہدی حسن اور لتا منگیشکر جیسے گائیک نے بھی کی۔ انھیں گیت، غزل، قوالی، کلاسیکل، نیم کلاسیکل پر مکمل عبور حاصل تھا۔
قوالی کے میدان میں ترقی کی بلندیوں کو چھونے والے استاد نصرت فتح علی خان کا نام آج بھی زندہ ہے، ان کا گایا کلام ہرکوئی شوق سے سنتا ہے۔ شدید علالت کے باعث استاد نصرت فتح علی خان 16 اگست کو اپنے مداحوں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے۔