ایمزٹی وی(صحت) کیمبرج، میساچیوسٹس: ہارورڈ کے سائنسدانوں نے تھری ڈی بایوپرنٹنگ کی مدد سے گردے کی بافتیں تیار کرلی ہیں جو تجربہ گاہ میں اسی طرح کام کررہی ہیں جیسے قدرتی گردے کی نالیاں کرتی ہیں یعنی یہ بڑی کامیابی سے خون صاف کرسکتی ہیں۔
’’تھری ڈی بایوپرنٹنگ‘‘ وہ ٹیکنالوجی ہے جس میں تھری ڈی پرنٹنگ کے لیے خاص طرح کی روشنائی (بایو اِنک) استعمال کی جاتی ہے جب کہ اس حیاتی روشنائی (بایو اِنک) میں مختلف اقسام کے زندہ خلیات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح تھری ڈی پرنٹر سے بننے والی چیز کو ’’جاندار‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں نہ صرف زندہ خلیات ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اُس عضو (organ) جیسی خصوصیات بھی ہوتی ہیں کہ جس سے ان خلیوں کا تعلق ہوتا ہے۔
جہاں تک گردوں کے مسائل کا تعلق ہے تو دنیا کی 10 فیصد آبادی گردوں کی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس میں سے بھی ایک بڑی تعداد کو ڈائیلیسس کی مستقل ضرورت رہتی ہے۔ لیکن اگر (تھری ڈی بایوپرنٹنگ سے استفادہ کرتے ہوئے) کسی شخص کے جسم سے حاصل شدہ خلیات استعمال کرتے ہوئے پورا گردہ تیار کرنے کی ٹیکنالوجی پختہ ہوجائے تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
مذکورہ تجربات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مکمل طور پر نیا گردہ ’’پرنٹ‘‘ کرلیا جائے لیکن چند نالیوں کے مقابلے میں پورا گردہ بے حد پیچیدہ ہوتا ہے جس کے لیے انہیں مزید کئی سال درکار ہوں گے۔ البتہ اس منزل کی طرف بڑھتے دوران سائنسدان گردے کی ایسی مصنوعی اور زندہ بافتوں پر کام کریں گی جو گردے کے چھوٹے موٹے امراض میں مبتلا افراد کو ان تکالیف سے نجات دلاسکیں گی