جمعہ, 19 اپریل 2024


ڈینگی وائرس سےمتعلق چند حقائق

  ڈینگی اس وقت دنیا میں مچھروں کے زریعے پھیلنے والی سب سے خطرناک بیماری ہے اور اس وقت 100 سے زائد گرم اور نیم گرم علاقوں میں پائ جاتی ہے- ڈینگی پھیلانے والےمچھر گھروں میں استعمال ہونے والے صاف پانی کے ذخیرے میں پرورش پاتا ہے سالانہ 50 کڑوڑ لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں جن میں سے 25-30 ہزار افراد لقمہّ اجل بن جاتے ہیں تاہم بر وقت علاج سے اس سے مکمل نجات مل جاسکتی یے- 99 فی صد افراد اس سے مکمل صحت یاب ہو جاتے ہیں اور انھیں صرف پیراسیٹامول کی ضرورت پڑتی ہے- چونکہ ڈینگی چھوت کی بیماری نہیں ہے اس لیے مریض کو علیحدہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی-ڈینگی کی بیماری 1994 میں کراچی میں پہلی دفعہ ظاہر ہوئی 1995 میں یہ حب (بلوچستان) میں ریکارڈ ہوئی- 2003 میں یہ ہری پور میں ریکارڈ ہوئی- 2005-2006 میں اس بیماری میں مزید شدت آگئی-2011 میں ڈینگی پورے پنجاب میں پھیل چکی ہے-خصوصا ًلاہور بھر میں اس کےہزاروں کیسز سامنے آچکے ہیں اور اب تک درجنوں اموات ہوچکی ہیں

ڈینگی بخار کیا ہے؟

ڈینگی دراصل ایک مہلک انفیکشن ہے جو مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے جس کی ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت زرا لمبی ہوتی ہیں اس بخار کا سبب بننے والی مادہ مچھر کے جسم پر سیاہ رنگ کی دھاریاں موجود ہوتی ہیں- یہ مادہ مچھر نکاسی آب کے راستوں، نلکوں ، بارش کے پانی، جھیل کے ساکن پانی  اور صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں میں انڈے دیتی ہے- اگست سے دسمبر تک ان مچھروں کے انڈوں کی تیزی سے افزائش ہوتی ہے

ڈینگی وائرس ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل نہیں ہوسکتا-جب مچھر وائرس کے ساتھ انسان کو کاٹتا ہے اور وائرس کو خون میں منتقل کر دیتا ہے   جس سے وہ انسان ڈینگی میں مبتلا ہوجاتا ہےپھر جب وہ مچھر کسی صحتمند انسان کو کاٹتا ہے تو وائرس اس فرد میں بھی منتقل ہوجاتا ہے اس لیے ضروری ہے کے مریض کو مچھر دانی کے اندر راکھا جاے تا کہ صحت مند انسان اس مچھر کے کاٹنے سے محفوظ رہ سکیں

ڈینگی بخار کا دوسرا نام بریک بون فیور بھی ہے اسے یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے کے اس بخار کے دوران ہڈیوں اور پٹھوں میں اتنا شدید درد ہوتا ہے کے ہڈیاں ٹوٹتی ہوئ محسوس ہوتی ہیں یہ مچھر انسان کو صبح 6 بجے سے لے کر9 بجے اور شام  4 سے رات 10 بجے کے دوران کاٹنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں یاد رہے اس مرض کی کوئ ویکسین نہیں ہےاس لیے اگر ابتدا میں ہی اس بیماری کو کنٹرول نہ کیا جاےّ تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے

ڈینگی کی کیا علاماتیں ہیوں؟

ڈینگی کی کیا علامات ہیں(بخار کے ساتھ)اگر کسی بھی شخص کو مندوجہ ذیل علامات ظاہر ہوں تو اس کو فی الفور قریبی ہسپتال میں دکھایئں۔

کمر جسم اور جوڑوں میں درد

شدید الٹیاں یا پیٹ میں درد

غنودگی یا کثرت سے نیند آنا

کھانے پینے کو دل نہ کرنا / نہ کھا نا

ہاتھ پاوّں ٹھنڈے ہونا

بے چینی / چڑچرا پن

بے ربط / بہکی بہکی باتیں کرنا

خون میں سفید خلیات کی کمی

شدید سر درد ، نزلہ اور زکام

شدید بیماری کی صورت میں جسم کے مختلف حصوں مثلا منہ اور ناک سے خون کا جاری ہونا

ڈینگی سے بچاوّ کی احتیاطی تدابیر

ڈینگی کے مچھر کی افزائش نسل صاف پانی میں ہوتی ہے لہٰذا مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں

پانی کی ٹنکی بالٹی ڈرم کنستر وغیرہ جن میں صاف پانی ہے اور پھولدان، گملے کے نیچے رکھے ہوے برتن ، بوتلوں میں رکھے ہوے پودوں کو اچھی طرح ڈھانپ کے رکھیں تا کہ مچھر ان میں داخل نہ ہوسکیں-

مچھروں سے بچاوّ کے لیے دروازوں اور کھڑکیوں پہ جالے لگوایّیں تا کہ مچھر ان میں داخل نہ ہو سکیں

سونے کے وقت مچھر دانی کا استعمال کریں

طلوع اور غروب آفتاب کے اوقات میں جسم کے کھلے حصوں کو اچھی طرح ڈھانپ کے رکھیں اور ہاتھ پیروں پہ مچھربھگا  لگایئں(Repellent)لوشن

گھروں میں مچھر مار اسپرے یا مچھر بھگانے کے لیے کوایّل  کا استعمال بھی بہت مفید ہے-

کیاریوں اور گملوں میں ایک دن چھوڑ کر صبح کے اوقات میں پانی دیں

اپنے گھر اور محلے کی صفایئ کا خاص خیال رکھیں

 

ڈینگی بخار کے متعلق کچھ ضروری حقایق

ڈینگی کی بیماری میں اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے تو ہی یہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے ورنہ اگر درست طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کے مریض ۹۹ فی صد تک صحت یاب ہو جاتے ہیں

ڈینگے بخار کی تین درجے ہوتے ہیں

درجہ اول

پہلے مرحلے میں ڈینگی وائرس جسم پر حملہ آور ہوتا ہے اس میں تیز بخار ہوتا ہے- پلیٹ لیٹس  تیزی سے کم ہوجاتے ہیں  اس کے لیے پینا ڈول بھی دی جا سکتی ہے-بر وقت علاج سے مریض پہلے مرحلے میں ہی صحت یاب ہو جاتا ہے-

درجہ دوم

دوسرے مرحلے میں ہیمرہیجک بخار ہونے لگتا ہے- پلیٹس لیٹس تیزی سے کم ہوجاتے ہیں- اور جسم کے مختلف حصوں سے خون خارج ہونے لگتا ہے-

درجہ سوم

اس میں ڈینگی کے ساتھ ساتھ دوسری بیماریاں بھی لاحق ہر جاتی ہیں -جس سے بیماری اور پیچیدہ ہو جاتی ہے اور علاج مشکل ہوجاتا ہے 

ڈینگی بخار کے بعد کی جانے والی احتیاط

پانی اور نمکول کا زیادہ سے زیادہ استعمال

ہر 24 گھنٹے بعد سی بی سی بلڈ ٹیسٹ پلیٹی لیٹس کی تعداد کے متعلق کروایا جائے-

نلکے کے پانی کی پٹیاں رکھیں

 اور درد کی دیگر ادویات سے پرہیز کریںIbuprofen, Disprin

بخار کی صورت میں پعراسیٹامول کی ایک یا دو گولیاں چھار گھنٹے بعد (حسب ضروت) 24 گھنٹے میں چھ سے زیادہ گولیاں نہ لیں۔

لال رنگ کے مشروبات سے پرہیز کریں

فل آستینوں والے کپڑے استعمال کریں-

ڈینگی بخار میں مریض کو ایسی غذا کھلائ جاے جس سے قوت مدافعت میں اضافہ ہو سکے- زود ہضم اور ہلکی غذا ہو-اور مرچ مصالحے کا استعمال کم سے کم ہو

پارک میں چہل قدمی  کے دوران جاگرز اور جرابیں استعمال کریں-

 

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment