مانیٹرنگ ڈیسک : انسولین وہ ہارمون ہے جو خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھتا ہے، ذیابیطس کے مریضوں میں خاطر خواہ ہارمون نہیں بنتا جس کے لیے انسولین کے ٹیکے لگانے پڑتے ہیں لیکن اب اچھی خبر یہ ہے کہ ماہرین نے بہت کم خرچ اور مؤثر طریقے سے انسولین تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کا اہم جزو انڈے کی زردی ہے۔
لیکن موجودہ انسولین کی ایک خرابی یہ ہے کہ اگر اسے خاص ماحول میں نہ رکھا جائے تو اس کے اندر شامل اجزا ریشے دار شکل اختیار کرلیتے ہیں۔انسولین کا مرکب ایک یا دو دن میں باریک لوتھڑوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے ’’فائبرلس‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ عمل مریضوں کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتا ہے، بالخصوص ایسے مریضوں کے لیے جو کسی پمپ کے ذریعے انسولین بدن میں داخل کرتے ہیں۔
میلبرن میں واقع فلورے انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز اینڈ مینٹل ہیلتھ کے ڈاکٹر اختر حسین اور ان کے ساتھیوں نے انڈے کی زردی کے بعض اجزا کو اس طرح بدلا ہے کہ اس سے انسولین کے ریشے بننے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
اس طریقے کو ماہرین نے مصنوعی طریقے سے انسولین کی تیاری کا نام دیا ہے۔
انسولین پمپ میں فائبرلس کا مسئلہ زیادہ پیش آتا ہے اور اس کے لوتھڑے مریض کے بدن میں جاکر بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسی وجہ سے مریضوں کو ہر 24 سے 72 گھنٹے کے لیے انسولین پمپ بدلنا یا اسے صاف کرنا پڑتا ہے لیکن نئی انسولین سے اس کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی اور دوا ضائع ہونے سے بھی بچ جائے گی۔
انڈے کی زردی میں شکریات پائی جاتی ہیں جس کی بدولت اس کے سالمات کو انسولین کے مالیکیول میں رکھا گیا ہے۔اس سے جو شے وجود میں آئی ہے اسے ’گلائکو انسولین‘ کا نام دیا گیا ہے۔
توقع ہے کہ اس طریقے سے بننے والی ویکسین دو سے چھ روز تک مؤثر رہے گی اور سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہوگی کیونکہ صرف امریکا میں ہی تین لاکھ سے زائد افراد انسولین پمپ استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اختر اور ان کی ٹیم کے مطابق اس کے ابتدائی تجربات نہایت حوصلہ افزا رہے ہیں۔