مانیٹرنگ ڈیسک: آسمان سے زمین پر گرنے والے نایاب ترین شہابئے پر اب ایک سال بعد تفصیلی رپورٹ شائع ہوگئی
ابتدائی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس میں کیلشیئم اور ایلمونیئم کی بڑی مقدار موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نظامِ شمسی کی گرم طشتری جب ٹھنڈی ہورہی تھی تو یہ دونوں عناصر پیدا ہوئے تھے۔ انہیں دیکھ کر اس وقت نومولود سورج کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب شہابئے میں کیلسائٹ کی معمولی مقدار بھی موجود ہے۔ اس میں بعض نامیاتی مرکبات، گارا اور نظامِ شمسی سے پہلے کے کسی اور ستارے کی باقیات بھی موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ شہابیہ سونے چاندی سے بھی قیمتی ہے اور سائنسدانوں کے لیے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے
گرنے والےاس حسین شہابئے کو جس درجے میں شمار کیا گیا ہے اسےکاربونیشیئس کونڈرائٹس کہاجاتاہےجسکےر زندگی کے بہت سے راز پوشیدہ ہوتےہیں۔
اس طرح کے بعض شہابیوں میں پانی کے آثار یا پھر نامیاتی مرکبات بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ابتدائی نظامِ شمسی، اس کے ارتقا اور خود زندگی کے ظہور پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔
خیال رہے کہ ایک واشنگ مشین کی جسامت کا شہابِ ثاقب ہماری زمینی فضا میں داخل ہوا اور عین کوسٹا ریکا کے اوپر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک ٹکڑا سائنسدانوں کے ہاتھ لگا ہے اور گزشتہ ایک برس سے اس کامطالعہ جاری تھا۔ خیال ہے کہ کچھ ساڑھے چار ارب سال قبل ایسا ہی کوئی پتھر زمین پر گرا اور شاید اس سے زندگی کا اولین ظہور ہوا ہوگا۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک غیرمعمولی دریافت ہے جس میں مزید حقائق پوشیدہ ہیں۔