برلن: جرمن ماہرین نے وقت کے مختصر ترین دورانیے کی پیمائش کرلی ہے جو صرف 247 زیپٹو سیکنڈ ہے۔ وقت کی یہ پیمائش ایک فوٹون کو ہائیڈروجن ایٹم کے ایک سرے سے دوسرے کونے تک کا فاصلہ (53 پیکومیٹر) طے کرنے کے مشاہدے میں کی گئی ہے، جو آج تک کی انسانی تاریخ میں وقت کی مختصر ترین پیمائش ہے۔
اس سے پہلے وقت کی مختصر ترین پیمائش کا ریکارڈ بھی جرمن سائنسدانوں ہی نے قائم کیا تھا، جو 850 زیپٹو سیکنڈ تھا۔ نیا ریکارڈ اس سے بھی 3.4 گنا مختصر ہے۔
بتاتے چلیں کہ ایک زیپٹو سیکنڈ (zeptosecond) سے مراد ’’ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے کے بھی ایک ارب ویں حصے کا ایک ہزارواں حصہ‘‘ ہوتا ہے۔
وقت کا یہ دورانیہ اتنا مختصر ہے کہ اگر ہم ایک زیپٹو سیکنڈ کو ایک سیکنڈ تصور کریں تو ہمارے مروجہ ’’ایک سیکنڈ‘‘ کا دورانیہ 31,700 ارب سال (اکتیس ہزار سات سو ارب سال) جتنا ہوجائے گا… یعنی ہماری کائنات کی موجودہ عمر (13 ارب 80 کروڑ سال) کے مقابلے میں بھی 2,365 گنا زیادہ!
وقت کی مختصر ترین پیمائش یہ تازہ کارنامہ گوٹے یونیورسٹی فرینکفرٹ، ڈوئچے الیکٹرون سنکروٹرون ایکسلیریٹر (DESY) ہیمبرگ اور فرٹز ہیبر انسٹی ٹیوٹ برلن کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر انجام دیا ہے۔
اگرچہ یہ تجربہ بھی بنیادی طور پر ویسا ہی تھا جیسا 2016 میں کیا گیا تھا لیکن گزشتہ پیمائش کےلیے ہیلیم ایٹم اور الٹراوائیلٹ شعاعیں استعمال کی گئی تھیں جبکہ نئے تجربے میں ہائیڈروجن ایٹموں پر ایکسریز کی نپی تلی بوچھاڑ کرکے وقت کی اس سے بھی مختصر پیمائش ممکن بنائی گئی۔
اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
واضح رہے بیشتر اہم اور بنیادی نوعیت کے حامل مظاہرِ فطرت انتہائی مختصر وقت میں رونما ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے مختصر سے مختصر دورانیوں کی پیمائش ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے۔
1999 میں کیمیا کا نوبل انعام مصر کے پروفیسر ڈاکٹر احمد زویل کو ’’فیمٹو کیمسٹری‘‘ میں کلیدی کردار ادا کرنے پر دیا گیا تھا، جس کے ذریعے پہلی بار یہ ممکن ہوا تھا کہ کسی بھی کیمیائی عمل کا مشاہدہ ایک سیکنڈ کے دس ہزار کھرب ویں حصے جتنے مختصر پیمانے پر کیا جاسکے۔