جمعہ, 22 نومبر 2024


ڈیٹادھوکےسےجمع کرنےاورمختلف اداروں کومہنگےداموں فروخت کرنےپرگوگل کےخلاف مقدمہ

واشنگٹن ڈی سی: مبینہ طور پر صارفین کا لوکیشن ڈیٹا دھوکے سے جمع کرنے اور مختلف اداروں کو مہنگے داموں فروخت کرنے پر گوگل کے خلاف مقدمہ کردیا گیا۔

مقدمہ کرنے والوں میںٹیکساس، واشنگٹن ڈی سی، انڈیانا اور واشنگٹن اسٹیٹ کے اٹارنی جنرلز شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ 2018 میں گوگل کے خلاف صارفین کا ڈیٹا دھوکے سے جمع کرنے اور بیچنے کے الزامات سامنے آنے کے بعد انہوں نے تین سال تک معاملے کی تفتیش کروائی جس سے یہ الزامات درست ثابت ہوئے

بتاتے چلیں کہ یہ الزامات 2018 میں پہلی بار ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک رپورٹ میں لگائے تھے۔

مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسمارٹ فونز کےلیے گوگل اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم، گوگل میپ، گوگل کروم اور دوسری تمام گوگل مصنوعات و خدمات میں لوکیشن سروس بند کرنے کے باوجود گوگل خفیہ طور پر اپنے صارفین کے راستوں اور ان مقامات پر نظر رکھتا ہے کہ جہاں وہ آنا جانا کرتے ہیں۔

اس طرح گوگل اپنے صارفین کو دھوکے میں رکھتے ہوئے مسلسل ان کا لوکیشن ڈیٹا جمع کرتا رہتا ہے۔ بعد ازاں یہی ڈیٹا مہنگے داموں میں مختلف کمپنیوں کو بظاہر ’’ذہین اشتہار بازی‘‘ کےلیے فروخت کیا جاتا ہے۔

گوگل کے خلاف یہ مقدمہ واشنگٹن ڈی سی سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا ہے اور اگر عدالتی تفتیش میں بھی گوگل پر لگائے گئے الزامات درست ثابت ہوئے تو گوگل پر اربوں ڈالر کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔

اس سے پہلے آسٹریلیا اور امریکی ریاست ایریزونا میں بھی گوگل کے خلاف اسی طرح کے مقدمات دائر کیے جاچکے ہیں۔

واضح رہے کہ صرف لوکیشن ڈیٹا کی خرید و فروخت کے عالمی کاروبار کا موجودہ حجم 10 سے 12 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اندازہ ہے کہ مسلسل اضافے کے بعد 2027 تک یہ حجم 31 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گ

دوسری جانب گوگل نے ان تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب باتیں پرانی اور غلط معلومات کی بنیاد پر کی جارہی ہیں جبکہ گوگل اپنے صارفین کے تخلیے (پرائیویسی) کا مکمل احترام کرتا ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment