ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) فرانسیسی انتظامیہ نےگزشتہ 8 ماہ کے دوران ملک بھر میں قائم بیس مساجد کو انتہاپسندی پھیلانے کے شبے میں بند کردیا ہے،جبکہ مزید 100 مساجد کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں.
تفصیلات کےمطابق فرانس کے وزیر داخلہ برنارڈ کیزنیو کا کہنا ہے کہ فرانس میں ایسی مساجد اور عبادتی مقامات کی کوئی جگہ نہیں ہے،جہاں لوگوں کو نفرت کے لیے اکسایا جائے اور جہاں مخصوص جمہوری اقدار بالخصوص مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کا احترام نہیں کیا جاتا.
انہوں نے کہا کہ ’ان ہی وجوہات کی بنا پر میں نے چند ماہ قبل یہ فیصلہ کیا کہ ایسی مساجد کو بند کردیا جائےاور اس سلسلے میں اب تک 20 مساجد بند کی جاچکی ہیں اور آگے مزید بند ہوں گی۔‘ فرانس میں دوہزار پانچ سومساجد و عبادتی ہالز ہیں،جن میں سے 120 میں مذہبی منافرت پر مبنی تعلیمات دیے جانے کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے. فرانسیسی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ 2012 سے اب تک فرانس سے 80 افراد کو بےدخل کیا جاچکا ہے،جبکہ مزید درجنوں افراد کی بے دخلی کا عمل جاری ہے.
یاد رہے گزشتہ دنوں فرانس کا ساحلی شہر نیس ممکنہ دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا،تیزرفتار ٹرک قومی دن کی تقریب کےدوران شرکا پر چڑھ دوڑا،جس کے نتیجے میں 84 افراد ہلاک جبکہ 120 زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے فرانس کے شہر روان کے قریب واقع چرچ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی،حملےمیں دو مسلح افرد نےپادری کو گلا کاٹ کر مار دیا تھا۔
واضح رہے کہ فرانس کے وزیراعظم مینوئل ویلس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ مساجد کی غیر ممالک سے مالی مدد پر عارضی پابندی عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔