اتوار, 24 نومبر 2024


ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کو تیارہیں،طارق فاطمی


ایمز ٹی وی (واشنگٹن) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ پاکستان اسامہ بن لادن کی نشاندہی کرنے پر قید کئے جانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔


انہوں نے کہا کہ پاکستان شکیل آفریدی کا معاملہ حل کرنے اور آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرنے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات حل کرانے کی ٹرمپ کی پیشکش کے حوالے سے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہے۔ اس حوالے سے وہ معاونت کرنے کی پیشکش کے لئے بالکل تیار ہے۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان آزاد اور خود مختار ریاست ہے جس کی عدالتیں قطعی آزاد ہیں جو انتظامیہ کے زیر تحت کام نہیں کرتیں۔ ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت انتظامیہ عدالتوں کے کام میں دخل دے سکے۔ تاہم پاکستان شکیل آفریدی کے معاملے کو ”حل کرنے اور آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرنے پر تیار ہے“۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوانین کے مطابق ڈاکٹر آفریدی پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور پاکستانی علاقے میں جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام عائد ہے۔ ”ڈاکٹر آفریدی نے پاکستان میں صحتِ عامہ سے متعلق پروگراموں اور ویکسین پروگرام کو نقصان پہنچایا ہے“۔ عالمی ادارہ صحت ان کی سرگرمیوں پر سخت پریشان تھا، ”چونکہ اس سے ویکسین پروگرام کو سخت دھچکا پہنچا“۔ ”ان سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں، یہ معاملہ عدالتوں کے سامنے ہے۔ یہ سیدھا سا سوال ہے کہ ایک پاکستانی شہری نے پاکستانی سرزمین پر جرائم کا ارتکاب کیا، پھر اسی سرزمین پر عدالتوں کا سامنا کیا“۔

اس سوال پر کہ کیا صدرِ کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ کسی مجرم کی سزا معاف کر سکے اور کیا آپ کے نزدیک پاکستانی صدر یہ اختیار استعمال کریں گے، انھوں نے کہا کہ ”یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب عدالتی کاروائی اختتام کو پہنچے گی، اور یہ سزا معاف کرنے کا اختیار، امریکی صدر کے پاس بھی موجود ہے، جسے وہ استعمال کرتے ہیں، اور اکثر سربراہوں کے پاس ایسے اختیارات موجود ہوتے ہیں۔“ پہلے عدالت اپنی کاروائی مکمل کرے گی پھر عدالت ہی یہ فیصلہ کرے گی آیا اس معاملے کو صدر کے سامنے بھیجا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اس اختیار کا استعمال کریں۔ دریں اثنا پاکستانی صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران، پوچھے گئے ایک سوال پر، مشیر خصوصی کا کہنا تھا کہ ”انسداد دہشت گردی کیلئے چلائی جانے والی مہم میں اس بات کا تعین پاکستان کرے گا کہ کب، کہاں اور کس دہشت گرد گروپ کو پہلے نشانہ بنانا ہے“۔ انہوں نے کہا کہ کیا امریکہ دہشت گردی کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی کامیابی میں دلچسپی رکھتا ہے یا اس کی حکمتِ عملی پر؟ ”ہم کس شہر میں کس وقت گئے ہیں، کس علاقے میں کب گئے ہیں، کس دہشت گرد گروپ کو پہلے فوکس کیا ہے، اس کی تفصیلات ہم پر چھوڑ دیں۔ اس کی تفصیلات ہم اپنے ماہرین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اِسی طرح سے امریکہ کو ہمیں نہیں بتانا چاہئیے۔۔۔“ امریکہ میں ان کا 10 روزہ دورہ ”کامیاب رہا“۔ انہوں نے کہا کہ ان کی امریکہ میں ملاقاتیں طے نہیں تھیں۔ ”اس لئے، ان کی ملاقات نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتقالِ اقتدار سے متعلق ٹیم کے ارکان سے نہیں ہو سکی۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مناسب وقت نہیں تھا چونکہ اگر وہ ہمیں وقت دیتے تو پھر دوسرے لوگ بھی وقت مانگتے اور یہ سلسلہ چل نکلتا، جو ٹرمپ ٹیم کیلئے مشکل ہوتا“۔

یہ معلوم کرنے پر کہ آیا ان کیلئے دورے کا یہ مناسب وقت تھا، انہوں نے کہا کہ ”یہی مناسب وقت تھا“، کیونکہ انہوں نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی جو آنے والے وقت میں، پالیسیوں کی تشکیل میں خاصے با اثر ہونگے، اور ایسے افراد زیادہ تر تھنک ٹینکوں سے لئے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ ان کی ملاقات آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مکین اور سینٹ کی امورِ خارجہ سے متعلق کمیٹی کے سربراہ سینیٹر بوب کورکر سے ہوئی، جن کے سامنے انہوں نے کھل کر پاکستانی موقف کو پیش کیا اور بتایا کہ پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کیلئے کس قدر جانی اور مالی نقصان برداشت کیا ہے۔ اس سوال پر کہ امریکیوں سے ملاقات کے دوران انہیں کس قسم کا ردِ عمل ملا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔ یہ بھی قبل از وقت ہوگا کہ آنے والی انتظامیہ، صدر اوباما کے دور میں متعارف کرائی گئی ایف پاک پالیسی میں کوئی تبدیلی لائے گی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ، افغانستان میں امن کے قیام کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے وہاں سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو، کیونکہ پاکستان میں امن اسی وقت قائم ہوگا جب افغانستان میں امن ہوگا۔ مستحکم اور پر امن فغانستان، ہماری معاشی ترقی کیلئے بھی ناگزیر ہے، کیونکہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے بجلی اور تیل کی درآمدات اسی وقت ممکن ہوں گی جب افغانستان میں امن قائم ہوگا اور مشرقی یورپ تک برآمدات اور درآمدات کا انحصار بھی افغانستان میں امن کے قیام سے ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے بہتر تعلقات ہوں۔ بقول ان کے، ”لیکن بھارت ایسا نہیں چاہتا“۔ ”سارک کانفرنس کے انعقاد کو بھارت نے نقصان پہنچایا، ایسا اس نے صرف پاکستان کے ساتھ نہیں کیا بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی کیا ہے“، کیونکہ، بقول طارق فاطمی کے، ”بھارت علاقائی تعاون پر نہیں بلکہ علاقے میں بالادستی پر یقین رکھتا ہے“۔ آنے والے دنوں میں ایسے مزید دورے کئے جائیں گے تاکہ پاکستانی موقف کو بااثر انداز میں پیش کیا جا سکے“۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ امن کے لئے ان کو دی گئی مراعات کافی نہیں۔


انہوں نے کہا کہ دورہ امریکہ پر پاکستان کا موقف پیش کرنے کا بہترین موقع ملا،دورے کا مقصد اوباما انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لینا تھا، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنا تھا، ملاقاتوں کے دوران کشمیر کے مسئلے کو خاص طور پر اٹھایا گیا۔ مقصد اوباما انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لینا اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی صلاحیتوں اور آپریشنل استعداد سے متعلق گفتگو کی۔ طارق فاطمی نے امید ظاہر کی جلد پاکستان کے دیگر اعلیٰ سطح وفود بھی امریکہ کے دورے پر آئیں گے۔ ملاقاتوں کے دوران کشمیر کے مسئلے کو خاص طور پر اٹھایا گیا۔ امریکی حکام نے پاکستانی فوج اور عوام کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں اور قربانیوں کو سراہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی وزیراعظم کی دعوت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کا دورہ کریں گے

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment