ھفتہ, 23 نومبر 2024


عالمی رہناؤں کے آنگ سان سوچی پر تنقید کے نشتر

 

ایمزٹی وی(نیویارک)عالمی رہنماؤں نے میانمار سے فوجی آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خاتون رہنما آنگ سان سوچی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
میانمار کی حکمراں جماعت کی رہنما آنگ سان سوچی نے گزشتہ روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے فوجی مظالم پر خاموشی اختیار کی۔ نوبل انعام یافتہ رہنما کے اس رویہ پر عالمی رہنماؤں نے سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے سوچی کو فون کرکے ان پر زور دیا کہ روہنگیا مہاجرین کو انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سدباب کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ میانمار میں فوجی آپریشن بند کیا جائے اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں سلامتی کونسل میں بھی قرارداد پیش کریں گے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی میانمار حکومت پر فوجی آپریشن بند کرنے کے لیے زور دیا۔ ادھر ترک صدر رجب طیب اردوان نے بین الاقوامی برادری سے اس بحران پر اقدام کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس انسانی المیہ کو نہ روکا گیا تو انسانی تاریخ میں ایک اور شرمناک سیاہ باب کا اضافہ ہوجائے گا۔
برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بھی ریاست راکھائن میں فوجی آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ نے تشدد کی وجہ سے میانمار کی فوج کیلئے تربیتی کورسز بھی بند کردیے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سوچی کی تقریر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوچی نے خود مظلوم کو ہی مورد الزام ٹہرادیا۔ ایمنسٹی نے کہا کہ سوچی نے فوجی مظالم کو نظرانداز کرکے اپنا سر ریت میں دبا لیا ہے۔ واضح رہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں ہزاروں ملسمان شہید اور لاکھوں ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment