ایمز ٹی وی (امریکا) امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ری کلاسیفائیڈ کی جانے والی دستاویزات کے مطابق قائدملت لیاقت علی خان کو امریکا نے افغان حکومت کے ذریعے قتل کروایا۔ امریکی منصوبے کے تحت افغان حکومت کے تیارکردہ قاتل کو 2 ساتھی ملزمان نے قتل کیا اور دونوں معاون قاتل ہجوم نے روند دیے اس طرح قائدملت کا قتل ایک سربستہ راز بن گیا۔ یہ دستاویزات اگرچہ 59 سال پرانی ہیں مگر پاکستان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ان دستاویزات میں اس جرم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ امریکا اس وقت ایران کے تیل کے چشموں پر نظر رکھتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس دور میں ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت زبردست تھے اور ان دنوں 1950-51ء میں افغانستان پاکستان کا دشمن شمار ہوتا تھا اور افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
اس وقت امریکی صدر نے قائد ملت لیاقت علی خان سے سفارش کی تھی کہ اپنے قریبی دوستوں ایرانیوں سے کہہ کر تیل کے کنوؤں کا ٹھیکہ امریکا کو دلوا دیں اس پر لیاقت علی خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں ایران سے اپنی دوستی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا اور نہ ہی ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کروں گا۔ اگلے روز امریکی صدرٹرومین کا لیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون موصول ہوا۔ لیاقت علی خان نے جواب میں کہا کہ میں ناقابل خرید ہوں اور نہ کسی کی دھمکی میں آنے والا ہوں۔ یہ کہہ کر فون بند کر دیا اور حکم دیا کہ آئندہ 24گھنٹوں کے اندر پاکستان میں امریکا کے جتنے طیارے کھڑے ہیں وہ پرواز کر جائیں اور اپنے ملک کو واپس چلے جائیں۔
ادھر واشنگٹن ڈی سی میں اسی لمحے ایک میٹنگ ہوئی اور طے ہوا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان ہمارے کام کا آدمی نہیں ہے، امریکا نے پاکستان میں ایک کرائے کے قاتل کی تلاش شروع کر دی اس زمانے میں اس کا سفارتخانہ کراچی میں تھا جو پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔ امریکا کو پورے پاکستان میں کرائے کا ایک قاتل نہیں مل سکا پھر واشنگٹن ڈی سی سے کراچی میں امریکی اور کابل کے سفارتخانے کو فون کیا کہ قاتل کو افغانستان میں تلاش کیا جائے۔
امریکا نے شاہ ظاہر شاہ کو یہ لالچ دیا کہ اگر تم لیاقت علی خان کا قاتل تیار کرلو تو ہم صوبہ پختونستان کو آزاد کرا لیں گے افغان حکومت تیار ہو گئی بلکہ 3 آدمی ڈھونڈے، ایک تو سیداکبر تھا جسے گولی چلانی تھی، 2مزید افراد تھے جنھوں نے اس موقع پر سید اکبر کو قتل کر دینا تھا تاکہ کوئی نشان کوئی گواہ باقی نہ رہے اور قتل کی سازش دب کر رہ جائے تو 16اکتوبر سے ایک دن پہلے سیداکبر اور اس کے وہ ساتھی جنھیں وہ اپنا محافظ سمجھتا تھا، تینوں راولپنڈی آئے۔ ایک ہوٹل میں رکے اور قبل از وقت کمپنی باغ میں اگلی صفوں میں بیٹھ گئے۔ سید اکبر نے دو نالی رائفل چھپا رکھی تھی، لیاقت علی خان جلسہ گاہ آئے اور اپنے خاص انداز میں کھڑے ہو کر کہا برادران ملت تو سیداکبر نے اپنے کوٹ سے رائفل نکال کر 2فائر کیے جو سیدھے بدقسمتی سے لیاقت علی خان کے سینے پر لگے، ان کے آخری الفاظ یہ تھے خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔
ادھر سید اکبر کے جو محافظ بھیجے گئے تھے انھوں نے سید اکبر کو قتل کر دیا اور مشتعل ہجوم نے محافظوں اور سید اکبر کو پیروں تلے ایسا روندھا کہ ہمیشہ کے لیے وہ سازش چھپ کر رہ گئی۔ اب ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس نے اس معاملے کو واضح کیا ہے۔ واضح رہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے آج تک مختلف کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں لیکن 60سال بعد امریکی محکمہ خارجہ نے یہ سارے راز افشا کر دیے۔