جمعہ, 22 نومبر 2024


بھارتی باشندوں میں بولے جانی والی اردو زبان بھی ہندوانتہا پسندوں کے نشانے پر آگئی

 

ایمزٹی وی(نئی دہلی)بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں اردو زبان میں حلف اٹھانے پر میونسپل کارپوریشن کے کونسلر مشرف حسین کے خلاف اشتعال انگیزی اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کے مقدمات درج کرلئے گئے ہیں۔
دنیا کا ساتواں عجوبہ تاج محل ہو یا برِصغیر کے حکمران ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش، بھارت کے اپنے ہی اداکار ہوں یا پاکستانی فنکار، غیرملکی طلبا ہوں یا بھارت کے باسی مسلمان، سکھ، عیسائی سب انتہاپسند ہندوؤں کے ظلم کا شکار ہیں، ہندو انتہا پسند جب چاہیں اور جہاں چاہیں اور جس کے خلاف چاہیں اپنی آوازبلند اور اپنے حریف کی زبان خاموش کرا سکتے ہیں۔ اب دنیا کی دوسری بڑی اور 58 کروڑ 50 لاکھ بھارتی باشندوں میں بولے جانی والی اردو زبان بھی ہندوانتہا پسندوں کے نشانے پر آگئی ہے۔
بھارتی ریاست اترپردیش کے شہرعلی گڑھ کے بنادیوی پولیس اسٹیشن میں بھارتی جنتا پارٹی کی جانب سے ایک مقدمہ درج کرایا گیا ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے شہر میں ہونے والے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں کونسلر منتخب ہونے والے بہوجن سماج پارٹی کے کامیاب امیدوار مشرف حسین نے اردو میں حلف اٹھایا جو انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 295- اے کے تحت اشتعال انگیزی اور مذہبی جذبات مجروح کرنے (مذہبی عقائد کی جان بوجھ کر توہین کرنا) کے زمرے میں آتا ہے۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد اردو زبان میں حلف برداری ایک بڑے تنازعے کا باعث بن گئی، انتہا پسندوں نے صرف ایف آئی آر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نومنتخب مئیر محمد فرقان اور کونسلر مشرف حسین پر حملے بھی کئے گئے، جس میں مئیر کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچا جب کہ مشرف حسین زخمی ہوئے۔
بنا دیو پولیس سٹیشن کے انچارج جتیندر دیکشت نے بھی انتہا پسندوں کو بھرپور ساتھ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں کسی زبان سے کوئی لینا دینا نہیں ہمیں تو لا اینڈ آرڈر دیکھنا ہے اور اس کے تحت عوام کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
دوسری جانب شہر کے نومنتخب مئیرمحمد فرقان نے بیان دیا ہے کہ اردو زبان میں حلف لینا کوئی جرم نہیں، یہ زبان آئین اور ریاست دونوں جگہ اپنی اہمیت رکھتی ہے لیکن تنگ نظری کا شکار ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment