گرین لینڈکرہِ ارض پر برف پگھلنے کے واقعات اور شرح دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مستقل برفیلے علاقے گرین لینڈ کی برفیلی تہیں اب 40 سال پہلے کی نسبت چھ گنا تیزی سے پگھل رہی ہےاورگزشتہ 30 برسوں میں اس کی 4 ٹریلیئن برف گھل چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق برف میں سب سے زیادہ کمی 1992 سے 2018 کے درمیان رہی جب3.8 ٹریلین برف پگھلی اور سمندر کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ مطالعہ اقوامِ متحدہ کے تحت انٹرگورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کی عین مطابقت ہے جس کی 2014 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برف کے عالمی ذخائر تیزی سے پگھلیں گے اور 2100 تک اس برف کے پگھلنے سے جو پانی سمندروں میں جائے گا اس سے سمندروں کی اوسط سطح 52 سے 98 سینٹی میٹر تک بڑھ جائے گی۔
یہ تحقیقی یونیورسٹی آف لیڈز کے سائنسدانوں نے پروفیسر اینڈریو شیپرڈ کی نگرانی میں کی ہے۔ انہوں نے گرین لینڈ کی برف میں کمی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس ضمن میں 2000 کے بعد گرین لینڈ کی تباہی شروع ہوئی اور جتنی برف بنی اس سے زیادہ کا پانی پگھل کر بہنے لگا کیونکہ اسی سال عالمی سمندروں کا اوسط درجہ حرارت بھی بڑھا۔
سن دو ہزار کے عشرے میں گرین لینڈ کی برف گھلنے سے عالمی سمندروں کی سطح ایک سینٹی میٹر سے کچھ زائد بڑھی تھی لیکن اب اس کی رفتار میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
اگرچہ اس کا اثر بہت ذیادہ نہیں ہوا لیکن قوی سمندری طوفانوں کی شرح اور قوت ضرور بڑھی ہے۔ اس کی ایک مثال 2012 میں شمالی امریکا کا مشہور طوفان سینڈی بھی شامل ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ معمولی تبدیلیوں کا بہت بڑا اور ہولناک اثر ہوسکتا ہے۔اب سے 80 برس بعد 2100 میں دنیا کے 63 کروڑ لوگ سمندر کنارے آباد ہوں گے اور بار بار ان کا سامنا سمندری طوفان سے ہوگا۔
اس صورتحال میں خود گرین لینڈ کی پگھلی ہوئی برف ایک اہم کردار ادا کرے گی۔