کراچی: پاکستان کے معروف شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد کو ترکی کے اعلیٰ ثقافتی اعزاز سے نواز دیا گیا۔
اپنی شاعری سے لوگوں کادل جیت لینے والے شاعر امجد اسلام امجدکوترکی میں منعقدہ ایک تقریب میں نصیب فضیل انٹرنیشنل کلچرل اور آرٹ ایوارڈ سے نوازا گیاجو کہ ترکی کا اعلیٰ ثقافتی ایوارڈہے-جس میں ان کی شاعری بھی سنی گئی۔
تقریب کے مہمان خصوصی ترک صدر طیب اردگان تھے انہوں نے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امجد اسلام امجد کی شاعری کو بہت سراہا اور کہا کہ امجد اسلام امجد جدید دور میں اردو ادب کے سب سے اہم شاعر اور پاکستان کی نامور شخصیت ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ترکی کا انتہائی عزیز اور قریبی دوست ملک ہے، دونوں ممالک کا مفاد یکساں ہے، یہ تعلقات باہمی اعتماد، یکجہتی اور خلوص پر مبنی ہیں۔
ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد امجد اسلام امجد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکی ہر پاکستانی کے دل کے قریب ترہے اور اس ایوارڈ پر ترک بھائیوں کے شکر گزار ہیں کے انہوں نےان کے کام کو اس قدو عزت و محبت سے نوازا۔
ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) اردوزبان کے سب سے بڑے شاعر اورمحسن مرزا غالب ہیں،انہوں نے اردو کو وہ عروج اور دوام بخشا جو آج بھی ضرب المثل ہے۔ اردو اور فارسی کے عظیم شاعر اسداللہ غالب 27 دسمبر1799ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے، لڑکپن سے ہی شعر کہنے لگے، ان کی شخصیت اپنی مثال آپ تھی، بادشاہ وقت سے نجم الدولہ دبیرالملک نظام جنگ کا خطاب ملا، تخلص غالب رکھا۔ غالب کی شاعری نا صرف ان کی ذاتی زندگی کا عکس ہے بلکہ ان کے عہد، سماج اور اردگرد کے ماحول کی بھی آئینہ دار ہے،شاعری ہو یا نثر، انشاپردازی یا خطوط نویسی، غالب نے ہر شے میں منفرد اور رنگین جدتیں پیدا کیں۔ غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی سے بیان کرنے کا ملکہ حاصل تھا، فارسی اور اردو شاعری کے نوشہ میاں کے قلم کا اعجاز ہے کہ آج اردو دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔
ایمز ٹی وی (کراچی) اردو کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کو ہم سے بچھڑے 13 سال گزر گئے لیکن ان کے لکھے گئے سریلے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار اختر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور پہلی نظم 11 سال کی عمر میں تحریر کی۔1940 کے اوائل میں کیفی اعظمی بمبئی آ گئے اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے اور یہیں ان کی شعری کا پہلا مجموعہ ’جھنکار‘ شائع ہوا۔مختلف صلاحیتوں کے مالک کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے لکھے، فلم کاغذ کے پھول میں ان کے گانے ’وقت نے کیا ،کیا حسیں ستم‘ کو بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد پاکیزہ فلم کا گانا’چلتے چلتے کہیں کوئی مل گیا تھا‘، ہیر رانجھا کا’یہ دنیا یہ محفل‘ اور ارتھ کے گیت’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو‘ بے حد مقبول ہوئے۔
ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیا اکیڈمی فیلوشپ انعام سے نوازا گیا۔واضح رہے کہ کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے۔ اپنے نغموں سے ناظرین کا دل جیتنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔