ایمزٹی وی(اسلام آباد)چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے مردم شماری میں تاخیر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ، سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا فوج کی عدم دستیابی کی وجہ سے مردم شماری نہیں کرائی جا سکی تاہم اگر فوج دستاب ہوئی تو مارچ یا اپریل 2017ءتک مردم شماری کا آغاز کر دیا جائے گا۔
جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ حکومتی تحریر محض دکھاوا ہے،حکومت واضح اور ایک تاریخ بتائے ۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ سارے کام فوج نے کرنے ہیں تو اداروں کی کیا ضرورت ہے؟ کوئی ایمرجنسی ہو تو فوج کو طلب کر لیا جاتاہے۔
سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے مارچ اور اپریل 2017ءکی دی گئی مشروط حکومتی تاریخ مسترد کر دی گئی ۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا ملک ایک قیاس پر چل رہا ہے،”سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہیں کرانا تو اسے بند کر دیتے ہیں“ ۔ہم انصاف نہیں دے سکتے تو ادارے کی بھی کیا ضرورت ؟ ۔
انہوں نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہر بڑی سیاسی جمود کے حق میں ہے، مردم شماری نہ ہونا موجود ہ اور سابقہ حکومتوں کی ناکامی ہے تاہم لوگوں کو بیوقوف بنائیں نہ پیسہ ضائع کریں ۔ اب بھی کہہ دیں مردم شماری کرانا حکومت کے بس کا کام نہیں۔ مرد م شماری کرائی تو اسمبلیوں کی سیٹیں بڑھانا پڑیں گی۔”مرد م شمارنہیں کرانی تو ادارہ شماریات بند کردیں “۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ مردم شماری کرنا آئینی تقاضا ہے ، شرط نہیں لگائی جا سکتی ۔آبادی کے اعدادوشمار ہی معلوم نہیں۔