ایمزٹی وی(اسلام آباد)وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لئے جنرل (ر) راحیل شریف کی ریاست کی سطح پر منظوری ہو چکی ہے تاہم جب یہ فوجی اتحاد باضابطہ طور پر کام شروع کرے گا تو وہ این او سی کے لئے اپلائی کریں گے اور قانون کے مطابق ان کو وزارت دفاع این او سی جاری کرے گی۔
قومی اسمبلی میں ڈاکٹر شیریں مزاری کی سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے تحریک التواء پر اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ 41 ممالک کی انڈر سٹینڈنگ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد بنایا جائے، اس حوالے سے چھ ماہ قبل ایک اجلاس ہوا تھا جس میں وزیراعظم محمد نواز شریف اور جنرل (ر) راحیل شریف نے شرکت کی۔
اس اتحاد کا مقصد دہشتگردی کا خاتمہ ہے، آئندہ ماہ اس اتحاد کے مقاصد واضح ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس اتحاد کے خدوخال اور مقاصد جب بھی واضح ہوتے ہیں ایوان کو آگاہ کریں گے۔ جنرل (ر) راحیل شریف کی تعیناتی کے معاملے پر سعودی عرب نے درخواست کی کہ پاکستان کے سابق سپہ سالار اس کی قیادت کریں، ریاست کی سطح پر اس کی اصولی منظوری ہو چکی ہے۔ اتحاد کی تشکیل کی رسمی کارروائی ہو جائے گی تو جنرل (ر) راحیل شریف این او سی کے لئے اپلائی کریں گے اور وزارت دفاع قانون کے مطابق ان کو این او سی جاری کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد کا بار بار حوالہ دیا گیا اس کی ضرور پابندی کی جائے۔ اگر ہم اتحاد کا حصہ بنتے ہیں تو کسی ایسے تنازعہ میں نہیں جائیں گے جو دو اسلامی ملکوں کے درمیان ہو۔
اس اتحاد کے کسی بھی ملک کے خلاف مذموم مقاصد نہیں۔جس طرح یمن کے حوالے سے اس پارلیمنٹ نے رہنمائی کی تھی اس معاملے پر بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حرمین شریفین کے ساتھ وابستگی اور سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ دوستانہ تعلقات کے باعث اس کی سیکیورٹی کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دوسرا ملک اس تنازعہ میں ملوث ہوتا ہے تو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے اور کسی کے خلاف اتحاد حصہ نہیں بنیں گے۔ ایوان کو اس معاملے پر تشویش نہیں ہونی چاہیے۔
قبل ازیں تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ اس معاملہ پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے کہ پاکستان کن بنیادوں پر اس اتحاد کا حصہ بنا ہے۔ طالبان اور داعش کو فنڈنگ روکنے کے لئے غیر فوجی اتحاد بنایا جائے۔ ہم حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے پرعزم ہیں، اس معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے غلام سرور خان‘ اسد عمر‘ عارف علوی‘ عائشہ گلالئی نے تحریک التواء کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے۔ اس بارے میں پارلیمنٹ کے فورم پر فیصلہ ہونا چاہیے۔