ایمزٹی وی(اسلام آباد)اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس دوسروں کو بہتر کرنے کے بجائے اپنے ادارے کو ٹھیک کریں، پہلے اپنے ادارے کو ٹھیک کریں پھر دوسروں کو بھی ٹھیک کرنے کی اجازت ہے، عدالتیں انصاف کرنے کے لیے ہوتی ہیں حکمرانی کے لیے نہیں، عدالتوں کے پاس 8 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں، اس کو بھی گورننس ہی کہا جاتا ہے، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کو بڑھا کر 35 کرنا چاہیے، پنجاب ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 60 سے 80 جبکہ سندھ میں 45 ہونی چاہیے۔
خورشید شاہ نے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے استعفوں کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے فوری استعفے آ جانے چاہیے تھے، انہوں نے استعفوں کی بات سسٹم کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کی لیکن ہم جمہوری پارٹی ہیں اس لیے سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، تحریک انصاف نے پارلیمنٹ سے 11 کروڑ روپے سے زائد تنخواہیں اور مراعات لیں، عمران خان نے بھی 70 سے 80 لاکھ روپے لیے ہیں، پی ٹی آئی یہ سب پیسے واپس کرے، استعفوں کے معاملے پر تحریک انصاف کا دہرا معیار ہے۔
شہباز شریف کی نیب کے سامنے عدم پیشی سے متعلق سوال پر خورشید شاہ نے کہا کہ اگر شہباز شریف پیش نہ ہوئے تو نیب کا ادارہ نہیں چل سکے گا، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے، قانون کی دھجیاں اڑتی رہیں اور ادارے خاموش تماشا دیکھتے رہے تو ختم ہو جائیں گے۔
خورشید شاہ نے راؤ انوار کو پیپلز پارٹی کی سرپرستی حاصل ہونے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری راؤ انوار کی سرپرستی نہیں کر رہے، اگر راؤ انوار قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے قتل کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے تو ان کے خلاف جوڈیشل انکوائری ہوگی، راؤ انوار کو بھاگنا نہیں بلکہ مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے۔