اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہےکہ ایک طبقہ 35 سے 40 سال اقتدار میں رہا اور ایک کچھ ماہ اقتدار میں رہا اس لیے 35 سال اقتدار میں رہنے والوں کا پہلے حساب ضروری ہے۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ’نیب سیاسی انتقام پر یقین رکھتا ہے اور نہ سیاست میں الجھانا اس کا کام ہے، ہمارا سیاست سے کیا کام ہے؟ ہمارا کام صرف اور صرف ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے، نیب بحیثیت ادارہ یہ کوشش کررہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ہر ضروری قدم کو اٹھایا جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’بعض لوگوں کی طرف سے عوام کو یقین دلایا گیا اور کوشش کی گئی کہ نیب سیاسی انتقام لے رہا ہے یا نیب کی ساری توجہ ایک طرف مرکوز ہے، یہ کوشش ناکام ہوگئی‘۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ’ایک طبقہ 35 سے 40 سال اقتدار میں رہا اور ایک کچھ ماہ اقتدار میں رہا اس لیے 35 سال اقتدار میں رہنے والوں کا حساب ضروری ہے، پھر مہینوں والوں کا حساب کیا جائے گا اور ان کا بھی احتساب کیا جارہا ہے‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ’ملک کا کوئی طبقہ خواہ اقتدار میں ہے یا نہیں، ہمارے لیے برابر ہے، آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی فیس کو دیکھا، ہم نے ہمیشہ کیس کو دیکھا، لاتعداد مقدمات ایسے ہیں جن میں شہادت نہ ہونے پر داخل دفتر کردیا، کبھی ذہن میں سیاسی انتقام نہیں آیا، نیب کا کسی سے کوئی جائیداد کا تنازع نہیں، نیب کیوں انتقام لے گا، نیب کی پہلی اور آخری وابستگی صرف پاکستان سے ہے‘۔
چیئرمین نیب نے مزید کہا کہ ’وہ لوگ جو عدالتوں سے باہر آکر اور پروڈکشن آرڈر جاری ہونے پر یہ تنقید فرما رہے ہیں کہ نیب سیاسی انتقام لے رہا ہے، ان ادب سے پوچھتا ہوں آپ سے کیوں انتقام لینا ہے؟ آپ نے ہمارے خلاف کچھ نہیں کیا، جو کیا ملک کےخلاف کیا اور کسی نے بھی ملک کے خلاف کچھ کیا ہے تو پھر نیب کے درگزر کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں سے بھی تعلق ہو، کچھ بھی کیا ہو، جو کرےگا وہ بھرے گا، یہ نیب کی بینادی پالیسی ہے اور ہم اس پر شدت سے قائم ہیں‘۔
انہوں نے کہاکہ ’نعرہ لگانا بہت آسان ہے کہ سیاسی انتقام ہورہا ہے اور نیب یکطرفہ کارروئی کررہا ہے، آپ ثابت کردیں نیب کے کسی فرد بشمول چیئرمین کسی سینیٹر، ایم پی اے اور ایم این اے سے کبھی ملاقات کی ہے، کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی میں خود ہی عہدہ چھوڑ دوں گا‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ’اخبار میں لگاتار آیا کہ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کررہا ہے، مجھے تو اس کا مطلب پہلی بار سمجھ آیا کہ اس کا مطلب جوڑ توڑ ہے، نیب جوڑ توڑ کا ادارہ نہیں صرف کرپشن کے خاتمے کا ادارہ ہے، کسی قسم کی انتقامی کارروائی کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کافی حد تک کامیاب ہوئے کہ لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے، میرے اور نیب کے نزدیک کوئی بڑا چھوٹا نہیں، سب برابری کی بنیاد پر پیدا ہوئے، ہم نے خواتین کی عزت نفس کا خیال رکھا، بہت باعزت طریقے سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ’ جو لوگ 80 اور 90 کی دہائی میں ہنڈا سیونٹی پر تھے ان سے آج پوچھا جائے دبئی میں ٹاور کہاں سے آگئے اور لندن میں جائیداد کیسی بنی؟ تو اس میں نیب کا کیا قصور ہے، یہ پوچھنا نیب کی ذمہ داری ہے، اگر ہم نہیں پوچھتے تو یہ ذمہ داری سے فرار ہے، اس کی میں نہ اپنے آپ کو اور نہ ادارے کو اجازت دوں گا، اگر 5 کی جگہ 5 ہزار خرچ ہوئے تو نیب یہ ضرور پوچھے گا‘۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جتنے کیسز موجود ہیں وہ بغیر وجہ کے نہیں، ان کے ٹھوس شواہد ہیں، منی لانڈنگ کے کیس میں شواہد ہیں اور وقت بتائے گا نیب جس طریقے سے مقدمات کی پیروی اور تفتیش کررہاہے اس کا نتیجہ بہت بہتر ہوگا، ہم ہوا میں معلق نہیں، بنیاد موجود ہے، اربوں کی منی لانڈرنگ کے مکمل شواہد ہیں جو وقت آنے پر عدالتوں کے سامنے پیش کیے جائیں گے، نیب کو لعن طعن کرنے کی بجائے بہتر ہے یہ وقت اپنے دفاع پر خرچ کریں تاکہ اپنا بہتر دفاع عدالت کے سامنے کریں کیونکہ نیب کا کام کسی کو سزا دینا نہیں، ہم شہادتیں عدالتوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں باقی عدالت کا کام ہے‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ’ کچھ حلقے تنقید کررہے ہیں کہ کسی مقدمے کا اختتام نہیں نظر آرہا، عدالت میں ریفرنس دائر کرنا نیب کی کارروائی کا اختتام ہے، 1250 کیسز زیر سماعت ہیں، عوام نیب کیسز کا لاجیکل اینڈ دیکھیں گے‘۔
ان کاکہنا تھاکہ ’ پاکستان میں لوگ یہ تصور بھی نہیں کرسکتھے تھے کہ لوگوں سے پوچھ گچھ ہوگی جن سے ہورہی ہے، یہ کسی ذاتی دشمنی یا انتقام کا نتیجہ نہیں لیکن شہادتیں اور اطلاعات موجود ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں کی اطلاعات موجود ہیں، ہم کیا آنکھیں بند کرلیں گے البتہ وائٹ کالر کرائم میں زیادہ محنت کی ضرورت ہے، وائٹ کالر کرائم اور عام جرم میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس میں وقت لگتا ہے، لاہور سے بات شروع ہوکر امریکا آسٹریلیا تک جاتی ہے‘۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ’ماضی میں جو کچھ ہوا اور جو ماضی قریب میں ہوا اگر یہ سب نہ ہوتا تو آپ کے ہاتھ میں کشکول نہ ہوتا، آپ فخر سے سر اٹھا کر چلتے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتے، ہم دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ادھر ادھر اپنی توانائی صرف نہ کررہے ہوتے، اگر اس کرپشن کا حساب نہ لیا جائے تو نیب خود مجرم ہے، موجودہ حالات میں خاموش رہنا ناممکنات میں سے ہے‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھاکہ ’100 ارب ڈالرز کا زیادہ تر قرض اللے تللے پر خرچ ہوا، اسپتالوں اور درسگاہوں کی حالت دیکھیں، کوئی ایسا اسپتال نہیں بنا جہاں ہرچیز میسر ہو، جو برداشت کرسکتے ہیں وہ زکام کا علاج کرانے بھی باہر چلے جاتے ہیں، نیب کی ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو زندہ رہنے کی جسستجو کررہے ہیں، یقین دلاتا ہوں کرپشن ختم ہوگی‘۔
انہوں نے کہا کہ’ پارلیمنٹ اور اراکین کا مکمل احترام ہے، وہ عوام کے نمائندے ہیں، چند ایسے ممبران تھے جن کے خلاف نیب کیسز ہیں، انہوں نے بجٹ میں کٹوتی کی تحریک پیش کردی کہ نیب کے افسران کی تنخواہیں جو بڑھی ہیں وہ ختم ہونی چاہیے، کچھ کا خیال تھا کہ بطور ادارہ نیب کو ہی ختم ہوناچا ہیے لیکن ایسی کوئی تحریک منظور نہیں ہوئی، عوام کو یقین دلاتا ہوں جو کچھ نیب پر خرچ ہورہا ہے نیب کئی گنا زیادہ واپس لوٹارہا ہے۔