جمعرات, 21 نومبر 2024


سانحہ اے پی ایس:سپریم کورٹ کا4ہفتوں میں ذمہ داروں کےتعین کاحکم

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے حکم پر وزیراعظم عمران خان سانحہ آرمی پبلک اسکول از خود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور دیگر وزرا اور اہم حکام بھی موجود تھے۔

جسٹس قاضی امین نے کہاکہ آپ وزیراعظم ہیں، ہم آپ کا احترام کرتے ہیں، یہ بتائیں کہ سانحے کے بعد اب تک کیا اقدامات اٹھائے۔ جس پر وزیر اعظٖم نے کہا کہ ہم نے سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہم جنگ اس لیے جیتے کہ پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی رہی، ہم نے نیشنل انٹیلی جنس کوارڈینشن کمیٹی بنائی جو معاملے کو دیکھ رہی ہے۔
عدالتی استفسار پر وزیر اعظم نے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو میں فوراً پشاور پہنچا، میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا، سانحے کے وقت صوبہ میں ہماری حکومت تھی، ہم نے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کررہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

 سانحہ آرمی پبلک اسکول چیف جسٹس آف پاکستان ایکشن میں

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آپ نے کیا کیا؟ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟۔

وزیر اعظم نے کہا کہ عدالت حکم دے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے والوں کا بھی تعین کیا جائے، ان 80 ۔ہزار شہدا کے بھی والدین تھے، ان کا بھی دکھ اتنا ہی ہوگا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ وزیر اعظم ہیں اپ ہر طرح کا اقدام کر سکتے، تاریخ میں بہت سے بڑے عہدیداران کا ٹرائل ہوا ہے۔ آپ حکومت میں ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے والدین کی داد رسی کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہر شہید ہونے والا ہمارا ہیرو ہے ، ہمارا نقصان ہوا ہے وفاقی حکومت نے جو کارروائی کرنی ہے کرے۔
سپریم کورٹ نے 4 ہفتوں میں سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کے تعین کا حکم دیتے ہوئے وزیراعظم سے اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی، عدالت نے وفاقی حکومت ذمہ داران کے خلاف کاروائی کے عمل میں بچوں کے والدین کو شامل کرے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment