ایمز ٹی وی (پشاور)خیبر پختوپختوا حکومت نے نویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تشکیل کے آئینی فرض کی تکمیل میں بلاجواز تاخیر اور صوبے کی مسلسل حق تلفیوں پر وفاق کے خلاف دفاعی پوزیشن برقرار رکھنے کی بجائے جارحانہ حکمت عملی اور باقی صوبوں سے رابطوں کےلئے بھی جاری رکھنے سے روکنے ،نو یں این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ کن اجلاس جلد بلانے اور صوبائی حقوق کی واگزاری یقینی بنانے پر آمادہ کرنے کیلئے متعدد فیصلے کئے گئے ہیں،یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پروفیسر محمد ابراہیم سمیت این ایف سی کمیٹی کے ممبران،کنسلٹنٹس،وکلاءوزیر خزانہ،سیکریٹری خزانہ اور ایڈیشنل و ڈپٹی سیکرٹری خزانہ باقی صوبوں کے متعلقین سے ہفتہ وار بنیادپررابطے کرینگے اور وازیر اعلیٰ کو پیشرفت سے مسلسل آگاہ رکھا جائے گا، مرکزکی طرف صوبے کے ذمہ سروے رپورٹ بھی وقت سے پہلے کرلی گئی ہے تاکہ کوئی حجت باقی نہ رہے اسی طرح صوبے کی تاریخ میں پہلی بار محکمہ منصوبہ بندی ،ماحولیات و تر قیات کوبھی محکمہ خازانہ کی ماونت کا ٹاسک حوالے کردیا گیا ہے جبکہ نئے این ایف سی ایوارڈ کیلئے قانونی جنگ لڑنے کی تیاری بھی شروع کردی گئی ہے،دریں اثناءصوبائی وزیر خزانہ مظفر سید نے اپنے دفتر سول سیکرٹریٹ پشاور میں ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونحوا عبدللطیف یوسفزئی سے ملاقات کی ہے جس میں نئے ایوارڈ کے بارے میں پیشرفت،صوبے کے دیگر حقوق اور ان کے حصول سے متعلق صوبائی حکومت کی گزشتہ،موجودہ اور آئندہ حکمت عملیوں اور ان کے قانونی پہلووں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور بعض ضروری فیصلے کئے گئے،
قبل ازیں وزیر خزانہ کی زیر صدارت اجلاس میں سکریٹری علی رضا بھٹہ اور دیگر متعلقہ حکام کے علاوہ پروفیسر محمد ابراہیم خان سمیت کمیشن کے ممبران اور محکمہ خزانہ سے وابستہ سابق سنئیر بیورو کرٹیس نے صوبے کو درپیش مسائل و مشکلات سے ااگاہی کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کا کیس موثر انداز میں پیش کرنے کیلئے تجاویز وسفارت پر تفصیلی غور وخوص کیا طے کیا گیا وفاق کی طرف سے این ایف سی طلب کر دہ ورکنگ پیپرمرکز کو دوبارہ بھیجے جائیں، دیگر صوبوں سے بھی رابطے کئے جائیں اور مرکز و صوبوں سے رابطے بڑحائے جائیں تاکہ مرکز کے پاس مزید تاخیر کا جواز ختم ہو،
وزیرخزانہ نے افسوس ظاہر کیا کہ مرکز ساتھویں این ایف سی ایوارڈ کو اگلے سال جاری رکھنے پر تلا ہے حلانکہ یہ ایوارڈاٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل کابنا ہے کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے اور محکموں کی منتقلی کے بعد صوبوں پر مالی بوجھ ہزار گنابڑھ چکا ہے خدشہ ہے کے چاروں صوبوں کے اتفاق رائے کے باوجود مرکز نئے ایوارڈ کیلئے اجلاس بلانے کی بجائے تاخیر حربے جاری رکھتے ہوئے پر انا این ایف سی لاگور کھے گا حالانکہ مرکز کا حق اب 42.5 فیصد نہیں بلکہ صرف20فیصد وسائل پر بنتا ہے باقی80فیصدوسائل صوبوں کو ملنے ہیں واضح رہے کہ ساتویں این ایف سی کے تحت مرکز42.55،پنجاب51.74فیصد،سندھ24.55فیصد،خیبر پختونخوا 14.62فیصد اور بلوچستان9.09فیصد فنڈزلے رہا ہے پچھلے این ایف سی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ صوبائی خودمختاری کے بعد 18ویں آیئنی ترمیم ،نیشنل ا یکشن پلان ،غیر ملکی امداد کے شفاف استعمال کے لئے پائیدار ترقی کے اہداف اور سی پیک کے ممکنہ اثرات کے مطابق نئے ایوارڈ کی جلد از جلد تشکیل ہوگی مگر تب سے کوئی پیشرفت نہ ہو سکی دوسری طرف وفاق کے قرضے 800ارب روپے سے تجاویز کر گئے جو2008کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہیں اورافراط زر میں بھی اضافہ ہوا ہے صوبے کو پن بجلے بقایاجات کے علاوہ تیل وگیس کی مد میں 29ارب روپے اور 1991کے پانی تقسیم معاہدے کے تحت199ارب روپے کی ادایئگی بھی باقی ہے صوبے میں افغان مہاجرین وآئی ڈی پیز،قدری آفات ،دہشت گردی اور امن وامان کے مسائل کی وجہ سے غربت ،بیروزگاری اور پسماندگی انتہاو¿ں کو چھونے لگی ہے جس کی تلافی آئین کے مطابق حقوق کی جلد از جلد ادائیگی سے ممکن ہے صوبے کے مالی نقصانات میں کئی گنا اضافہ ہوا مگر مرکز دہشت گردی کی مد میں صرف ایک فیصد فنڈ فراہم کئے جو اونٹ کے منہم میں زیر ے کے برابر ہیں اور یہ پانچ فیصد سے زائد ہونا چاہئیں۔