لاہور: پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے کہا ہےکہ بھارت نومبر میں کرتارپور راہداری کھولنے کیلئے مکمل سنجیدگی کے ساتھ کام کررہا ہے۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور سے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے گورنر ہاؤس لاہور میں ملاقات کی جس میں کرتارپور راہداری منصوبے سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بھارتی ہائی کمشنر سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا کہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پر امن اور دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں،کرتارپور راہداری منصوبے پر پاک بھارت مذاکرات اور پیش رفت خوش آئند ہے، پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل چاہتا ہے بھارت مذاکرات کی میز پر آئے۔
اس موقع پر بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے کہا کہ بھارت نومبر میں کرتارپور راہداری کھولنے کیلئے مکمل سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہا ہے، کرتار پور راہداری منصوبے کے حوالے سے بھارت میں موجود سکھوں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
بھارتی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ کرتارپور جیسے منصوبوں سے پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، کرتارپور میں کمپلیکس کے لیے اراضی بڑھانے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
کرتار پور کی تاریخی اہمیت
لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے، یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا اور یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
نارووال شکر گڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے، یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔
گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور اُن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کرتارپور سکھوں کے لیے مقدس مقام ہے۔
بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔