ایمزٹی وی(تحقیق) امور سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن کی ”جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی“ یا ”عمومی نظریہ اضافیت“ کے 100 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ جرمنی میں پیدا ہونے والے عظیم سائنس دان نے 25 نومبر 1915ءکو یہ غیرمعمولی نظریہ پیش کیا تھا۔ آئن اسٹائن کا یہ نظریہ دستاویزی حالت میں مارچ 1916ءمیں جرمن سائنسی جریدے ”انالین ڈیر فزیک“ میں شائع ہوا تھا.آئن اسٹائن نے نظریہ اضافیت میں بتایا کہ یہ کائنات زمان و مکان کا ایک کپڑا سا ہے جس پر جب بھی کمیت کی حامل کوئی شے رکھی جائے گی تو اس کپڑے میں خم پیدا ہو جائے گا اور اسی خم کی وجہ سے قریب موجود دیگر اجسام اس کی جانب کھنچے چلے آئیں گے یعنی جتنی زیادہ کمیت ہو گی زماں و مکاں میں یہ خم اتنا ہی زیادہ ہو گا اور نتیجہ اتنی ہی زیادہ کشش کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اس نظریے میں آئن اسٹائن کا یہ بھی کہنا تھا کہ زمان و مکان جامد نہیں بلکہ ان کے اندر لچک موجود ہے اور تجاذبی قوت ان پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔آئن اسٹائن کے مطابق زیادہ کمیت کی موجودگی میں وقت کی رفتار کم ہو جاتی ہے یعنی خلاء میں چلنے والا وقت کسی سیارے یا ستارے کی سطح پر چلنے والے وقت سے تیز ہوتا ہے۔ آئن سٹائن ہی وہ طبیعات دان تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ یہ واضح کیا کہ اگر مادہ روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو وہ توانائی میں تبدیل ہو جائے گا یعنی مادہ توانائی ہی کی ایک مرتکز قسم ہے سوئٹزرلینڈ کے ایک پیٹنٹ آفس میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے آئن سٹائن نے اپنے غیرمعمولی نظریات سے پوری دنیا کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ عقل و فکر کے ایک محاورے کے طور پر جانا جانے والا یہ سائنس دان 18 اپریل 1955ءکو انتقال کر گیا مگر زندگی کی آخری سانس تک سائنسی رازوں کی پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں رہا