ھفتہ, 23 نومبر 2024


کراچی بدامنی کیس تمام متعلقہ افرادعدلت میں پیش ہوئے

ایمزٹی وی(کراچی) سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت، عدالت نے رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔

سپریم کورٹ رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت اٹارنی جنرل، سیکریٹری داخلہ سندھ ، چیف سیکریٹری اور ائی جی سندھ سمیت تمام متعلقہ افراد عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پرچیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے عدالت کو کراچی میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 میں شہر میں 46 مقامات پر 2 میگا پکسل کے 198 کیمرے نصب کیے گیے جبکہ 2012 میں 2 میگا پکسل کے مختلف علاقوں میں 820 کیمرے نصب کیے گیے جن میں سے صرف 17 کام کررہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ ’’2014 میں 2 میگا پکسل کے 910 جبکہ 2015 میں 5 میگا پکسل کے 225 کیمرے نصب کیے گیے ہیں، 2010-2011 میں 164 مقامات پر لگائے گئے کیمروں کے لیے 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی تھی‘‘۔

رپورٹ میں کیمروں کے کنٹرول کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ ’’ 2008 میں نصب کیے گیے تمام کیمروں کا مکمل کنٹرول وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا جبکہ جن میں سے 2321 کیمروں کا کنٹرول کے ایم سی کے پاس ہے ، نصب کیمروں کا سروے اور مرمتی کام کے لیے کوئی ماہر موجود نہیں ہے‘‘۔

چیف سیکریٹری سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’’یکم اکتوبر سے شہر میں لگے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کا مکمل کنٹرول پولیس کو دے دیا جائے گا،اس منصوبے کی تکمیل کے لیے آئی جی سندھ نے 3 کمیٹیاں تشکیل دی ہیں اور ایک ٹینڈر جاری کیا ہے جس کی آخری تاریخ 26 جولائی ہے‘‘۔

چیف سیکریٹری نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’’اس اقدام کا مقصد شہر میں جاری جرائم کو قابو کرتے ہوئے عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے، حکومت سندھ نے اس مقصد کے لیے رواں سال 27 کروڑ روپے مختص کیے ہیں، چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ ’’جی ایم لوکیٹر ز کی فراہمی کا معاملہ کہاں تک پہنچا‘‘ جس پر آئی جی سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ موبائل کمپنیاں ڈیٹا فراہم کرنے میں تعاون نہیں کرتیں ، ہمیں ایک کیس میں ڈیٹا رسائی کے لیے 14 روز کی مہلت دی جاتی ہے اور جیو فکسنگ کی سہولت بھی فراہم نہیں کی گئی، پولیس تفتیش کا اہم ادارہ ہے مگر اس کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے تفتیش بہت متاثر ہوتی ہے‘‘۔

عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا جس پر انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’’لوکیٹرز سندھ پولیس کو دیئے جارہے ہیں اگر کسی کیس میں جیو فنیسنگ کی ضرورت ہو تو 2 گھنٹے میں سہولت فراہم کردی جاتی ہے‘‘۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ کہہ رہے ہیں کہ معلومات فراہم نہیں کی جاتی، جس پر انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ متعلقہ ادارے کو معلومات تک رسائی حاصل ہے تاہم تمام اداروں کو صارف کے ڈیٹا حصول کی سہولت میسر نہیں ہے تاہم سیکریٹری داخلہ نے پولیس افسران کی فہرست فراہم کی ہے جو موبائل کمپنیوں کو فراہم کردی جائے گی، جس پر عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے سے کہا کہ ’’آپ سیکریٹری داخلہ کے نوٹیفکشن سے لاعلم ہیں؟‘‘۔

جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’آئی جی سندھ، سرکاری ادارے ایک دوسرے پر انگلی نہ اٹھائیں یہ غیر سنجیدہ عمل ہے، ادارے آپس میں بیٹھ کر معاملات کو حل کریں‘‘۔

آئی جی سندھ نے عدالت کو کہا کہ ’’کسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتے عدالت اس حوالے سے خود فیصلہ کر کے متعلقہ اداروں کو پابند کرے، اٹارنی جنرل نے آئی جی سندھ کے بیان پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’صوبے میں قیامِ امن کی ذمہ داری آئی جی سندھ کی ہے‘‘۔

سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’’موبائل کمپنیوں کو تمام صوبوں کے ڈی آئی جیز کو معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل، چیئرمین پی ٹی اے، آئی جی سندھ ، چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ 2 ہفتوں میں جیو فیسنگ اور جی ایس ایم لوکیٹر کے معاملے کو حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 اگست تک ملتوی کردی۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment