ھفتہ, 23 نومبر 2024


سندھ کا مردم شماری آپریشن

 

ایمز ٹی وی(کراچی) سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ صوبے میں موجود غیر قانونی مہاجرین اور غیر ملکیوں کے سواء دیگر تمام افراد کو مردم شماری کا حصہ بنایا جائے گا، جیسا کہ اس سے اسمبلیوں میں سیاسی نمائندگی، حلقوں کی حد بندی، فنڈز کی تقسیم اور وفاقی حکومت میں سول عہدوں پر بھرتی کے کوٹے کے معاملات منسلک ہیں۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد کیا جس میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے نمائندوں کی جانب سے مردم شماری کے حوالے سے پیش کی گئی تفصیلی بریفنگ کے بعد اجلاس کے ایجنڈے میں شامل دیگر معاملات پر بات چیت کی گئی۔ سندھ سیکریٹریٹ میں ہونے والے اجلاس میں تمام صوبائی وزیر، مشیر، خصوصی مشیر، چیف سیکریٹری، صوبائی پولیس چیف، شماریات کے چیف، نادرا کے نمائندے اور دیگر سینئر سرکاری عہدیداران شامل تھے۔ مردم شماری کے علاوہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل دیگر معاملات میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال، فوڈ اتھارٹی بل، متنازع دلچسپی کے بل، عشر جمع کرنے کا قانون اور پناہ شیلٹر ہوم شامل تھے۔ صوبے میں مردم شماری 10 دن کے وقفے کے ساتھ دو مراحل میں ہوگی، پہلے مرحلے کا آغاز 15 مارچ کو ہوگا جس میں کراچی، حیدرآباد، گوٹھکی جبکہ دوسرے مرحلے میں صوبے کے باقی تمام اضلاع میں مردم شماری کی جائے گی۔ جاری شیڈول کے مطابق مکانات کی فہرست بنانے کا کام تین روز تک جاری رہے گا جو 15 سے 17 مارچ کے دوران مکمل کیا جائے گا، جس کے بعد فارم ٹو کو بھرنے کا عمل 27 مارچ تک جاری رہے گا، بے گھر افراد کی مردم شماری کا کام ایک روز (28 مارچ) کو مکمل کیا جائے گا، پُر کیے گئے فارمز کی واپسی اور دوسرے مرحلے کیلئے دستاویزات کی فراہمی کا کام 29 اور 30 مارچ کو کیا جائے گا۔ مردم شماری کے دوسرے مرحلے میں گھروں کی فہرست بنانے کا کام 11 مئی سے 13 مئی تک جاری رہے ہوگا۔ مردم شماری آپریشن کے لیے 28038 افراد کی ضرورت ہوگی، جنھیں محکمہ تعلیم، ریونیو، مقامی حکومت، پاپولیشن ویلفئراور دیگر محکموں سے تعینات کیا جائے گا۔ ان افراد کی ٹریننگ بل ترتیب 24 جنوری اور 4 فروری کو شروع ہوگی جبکہ 183 ٹرینرز 28038 افراد کو 704 بیچز میں ٹریننگ فراہم کریں گے۔ مردم شماری کرنے والے ہر فرد کے ساتھ ایک سپاہی ہوگا جو انفرادی طور پر تمام گھروں کے نمبر اور خاندان کے سربراہ یا گھر کے دیگر کسی ذمہ دار کا قومی شناختی کارڈ نمبر حاصل کرے گا۔ مردم شماری کے عمل کی نگرانی کیلئے ضلع کی سطح پر ویجیلینس ٹیمیں بنائی جائیں گی۔ اجلاس کے دوران کابینہ کو مردم شماری پر بریفنگ دیتے ہوئے شماریات کے چیف آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ 2008 میں تعطل کاشکار ہونے والی چھٹی مردم اور مکانات شماری کا آغاز 15 مارچ 2017 سے ہونے جارہا ہے ، جسے مشترکہ مفادات کونسل نے گذشتہ سال 16 دسمبر کو منظور کیا تھا۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ مکانات کی فہرست بنانے کا کام اور مردم شماری ایک ساتھ کی جائے گی، فارم ٹو کو مردم شماری کے دوران استعمال کیا جائے گا جبکہ فارم ٹو اے کو مردم شماری کے آپریشن کے اختتام پر پُر کیا جائے گا۔ صوبائی کابینہ کی تجاویز اس موقع پر صوبائی وزیر مُکیش کمار چاولہ نے بتایا کہ فارم ٹو اے کے ذریعے ہجرت، عمر، معذوری اور دیگر اہم معلومات حاصل کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ فارم کو مردم شماری کے دوران ہی باضابطہ طریقے سے پُر کیا جانا چاہیے۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو وفاق کے سامنے اٹھائیں گے۔ کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس عمل کی مکمل کوریج اور مؤثر نگرانی کیلئے ملک کو 4 مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں مردم شماری کے اضلاع، مردم شماری کے انچارج، مردم شماری حلقوں اور 200 سے 250 گھروں پر مشتمل مردم شماری کے بلاکس شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ کو بتایا گیا کہ مردم شماری کے صوبائی نتائج کا اعلان 60 یوم کے اندر کردیا جائے گا اور اس حوالے سے اہم خصوصیات پر پیشگی ٹیبیولیشن بنایا جائے گا اور رپورٹیں بھی باقاعدہ طور پر منظر عام پر لائی جائیں گی۔ اجلاس کے دوران سوال وجواب کی نشست کے دوران صوبائی وزیر منظور وسان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے فارم میں صرف 6 مذاہب اور 10 زبانوں کو شامل کیا گیا ہے جس میں پارسیوں اور ان کی زبانوں جیسا کہ گجراتی اور کاٹھیاواڑی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مادری زبان گجراتی تھی اور اسے فارم میں شامل کیا جانا چاہیے، جس سے یہ واضح ہوسکے گا کہ سندھ میں کتنے پارسی، گجراتی اور دیگر افراد رہائش پذیر ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو بھی وفاقی حکومت کے سامنے اٹھائیں گے۔ سینئر وزیر نثار کہوڑو کا کہنا تھا کہ اعتراضات دائر کرنے اور انھیں دور کرنے کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے، اس سارے عمل کی نگرانی کیلئے ایک منتخب نمائندے کو لازمی ہونا چاہیے۔ جس پر انھیں بتایا گیا کہ نگرانی کی کمیٹی میں بلدیاتی نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ 2 کروڑ 24 لاکھ قومی شناختی کارڈ نادرا کے نمائندے سہیل نے کابینہ کو بتایا کہ 2 کروڑ 24 لاکھ قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں جبکہ 33 لاکھ کی آبادی 18 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ نادرا کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ادارے کے پاس قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کیلئے 30 موبائل گاڑیاں ہیں، جن میں سے 13 ان علاقوں میں بھیجی جاسکتی ہیں جہاں قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کی ضرورت ہو۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ کابینہ سے مشاورت کے بعد وہ ان علاقوں کی نشاندہی کریں گے جہاں قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کی ضرورت ہے اور نادرا کو مطلع کردیا جائے گا کہ وہ ان علاقوں میں اپنی گاڑیاں بھیج دیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ 13 گاڑیاں، جو یومیہ 100 قومی شناختی کارڈ جاری کرسکتی ہیں، مذکورہ عمل کیلئے ناکافی ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں طے پایا کہ ان گاڑیوں میں اضافے کیلئے وفاق سے درخواست کی جائے گی۔ کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ تقریبا 15000 افراد نے اپنے قومی شناختی کارڈ وصول نہیں کیے ہیں۔ جس پروزیراعلیٰ سندھ نے نادرا کے عہدیدار کو یقین دہانی کرائی کہ ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ مذکورہ قومی شناختی کارڈ کی منتقلی کیلئے نادرا کو مدد فراہم کرے گی۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment