کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل سنگل بینچ نے غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے اساتذہ کی بھرتیوں، صوبے میں ای لائبریری اور کمپیوٹر لیب کے قیام سے متعلق دائر درخواست پر صوبائی حکومت کو تعلیمی اداروں کی مینجمنٹ میں نان پروفیشنل افراد کی تعیناتی سے روک دیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ سندھ میں 37 ہزار اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں لیکن کسی کو فکر نہیں، ایک ماہ میں اساتذہ کی بھرتیوں کے حوالے سے اقدامات نہ کیے گئے تو پھر سیکریٹری خزانہ کو طلب کریں گے۔ فاضل عدالت نے صوبائی حکومت کو اساتذہ میں سے ڈپٹی سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری مقرر کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔سماعت کے موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم میں ٹیچنگ کمیونٹی سے ایڈمنسٹریٹر لگائے جائیں، ایک سال میں کئی سیکریٹریز تعلیم کا تبادلہ کیا گیا ، متعلقہ ایجوکیشن آفیسر کے حوالے سے جلد ہی پالیسی بنائی جائے۔
سیکریٹری تعلیم احمد بخش ناریجو نے عدالت کو بتایا کہ جب تک رول بنتے ہیں تب تک کیڈر آفیسرز کو پوسٹنگ پر رہنے دیں۔ اس موقع پر عدالت نے حکم دیا کہ 6 ماہ میں ٹیچرز کو ان پوسٹوں پر مقرر کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔
جسٹس صلاح الدین پنہور کا کہنا تھا کہ سندھ ایسا صوبہ ہے جہاں تعلیم کے حالات بدترین ہیں، کالجز کی کمی ہے، دیہی علاقوں میں بچے 15،15 کلومیٹر پیدل پڑھنے جاتے ہیں، محکمہ تعلیم دیہی علاقوں کے بچوں کو ٹرانسپورٹ فراہمی کے انتظامات کرے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ 1996ء سے اب تک بی ایس کے نام پر طلبا سے فراڈ کیا جارہا ہے، بی ایس ڈگری ہولڈرز کیلئے ملک میں کوئی نوکری نہیں، دنیا تو دور کی بات ہے،آپ اخبارات میں اشتہار اور کالجز میں پینا فلیکس لگادیں کہ بی ایس اصل بی ایس ہے ہی نہیں۔ درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حیدرآباد کے ایک ہی اسکول میں 10 اساتذہ کی جگہ 30 کو تعینات کیاگیا ہے۔ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اضافی اساتذہ کی تعیناتی تو جرم ہے۔