ایمز ٹی وی (کراچی) غیر ملکی خبررساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی کا خاتمہ ہو، بھارت بنیادی طور پر خطے میں پاکستان مخالف افغانستان کا خواہاں ہے، اس وجہ سے افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن اور سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ افغانستان سے نیٹو کے 34 ہزار فوجیوں کے انخلا کے بعد وہاں ایک خلا پیدا ہوگا اور وہاں کے روایتی حریف ایک مرتبہ پھر مدمقابل آسکتے ہیں، ایسی صورت میں وہاں دونوں ممالک کے درمیان پراکسی وار شروع ہوسکتی ہے کیونکہ اگربھارت نے افغانستان کے اقلیتی نسلی گروہوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا تو پھر پاکستان بھی وہاں اپنے نسلی عناصر استعمال کرے گا۔
صابق صدر کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد ان کی جانب سے امریکا کی حمایت کا فیصلہ بالکل درست تھا اور امریکی افواج نے طالبان کے خلاف کامیابی بھی حاصل کی لیکن انہوں نے وہاں آباد نسلی طور پر تاجک اقلیت کو اقتدار کی منتقلی کی جس کی وجہ سے مقامی پشتون اکثریت ان سے دور ہوگئی اور امریکا طالبان کے خلاف جنگی فتح کو سیاسی فتح میں تبدیل نہ کرسکا، اس کے علاوہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے فوجی حکام کو عسکری تربیت کے لئے پاکستان کے بجائے بھارت بھیجا، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے اسٹریٹیجک مسائل پیدا کرتی ہیں لیکن افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی۔
حالیہ دھرنوں کے حوالے سے پرویز مشرف نے کہا کہ انہیں اس پرکوئی شک نہیں کہ اس ملک کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور کسی اور کو بھی یہ شبہ نہیں ہونا چاہئیے کہ پاکستانی عوام تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔