لاہور: کرکٹرز کو گرمی سے بچانے کے نسخےتیارکرلیے گئے جب کہ پانی کے زیادہ وقفے ہوں گے۔
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین ون ڈے سیریز گزشتہ سال دسمبر میں کراچی میں ہونا تھی مگر کورونا کیسز کی وجہ سے ملتوی ہوگئی، بعد ازاں اسے رواں ماہ راولپنڈی میں ری شیڈول کیا گیا، عمران خان کے لانگ مارچ کی وجہ سے سیریز کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا، لاہور اور کراچی کے اسٹیڈیمز میں نئی پچز کی تیاری کا کام جاری ہے۔
لہٰذا آئی سی سی ورلڈکپ سپر لیگ کے مقابلے ملتان میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا،ملک کے گرم ترین شہروں میں سے ایک میں 50اوورز فارمیٹ کے میچز کا فیصلہ بڑی حیرت سے دیکھا گیا،شدید گرمی کا مقابلہ کرنے کیلیے تینوں ون ڈے شام 4 بجے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا، میچ کے دوران پانی کے اضافی وقفے رکھے گئے ہیں، کرکٹرز خود کو ٹھنڈا رکھنے کیلیے آئس کالر کا استعمال بھی کریں گے۔
ان تمام تر تدابیر کے باوجود تقریباً 45 ڈگری کی سخت گرمی کھلاڑیوں کیلیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگی، زیادہ مسئلہ پہلے بولنگ کرنے والی ٹیم کے فاسٹ بولرز اور فیلڈرز کو پیش آئے گا،اسٹیڈیم کے اسٹینڈز پر چھتیں ضرور ہیں لیکن اگلی نشستوں پر پڑنے والے دھوپ شائقین کو برداشت کرنا ہوگی۔
بہرحال شدید گرم موسم میں پہلے بھی چند میچز تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، 2002 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم شارجہ میں آسٹریلیا کیخلاف ایک اننگز میں 59 اور دوسری میں 53 رنز پر آؤٹ ہوئی تھی تو درجہ حرارت 50تھا،اسی سال انضمام الحق نے لاہور کی چلچاتی دھوپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹرپل سنچری بنائی۔
آسٹریلیا اور بھارت کی ٹیمیں 2017 میں کولکتہ میں ون ڈے انٹرنیشنل میں مقابل ہوئیں تو اس وقت ٹمپریچر 43 ڈگری تھا۔