جمعہ, 03 مئی 2024

Displaying items by tag: cancer

 


ایمز ٹی وی(ٹیکنالوجی) واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے اسمارٹ فون سے منسلک ہونے والا ایک ایسا مختصراوردستی آلہ ایجاد کرلیا ہے جو مختلف اقسام کے سرطان (کینسر) کی تشخیص 99 فیصد درستگی سے کرسکتا ہے۔
یہ آلہ اسٹیٹ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے چینی نژاد سائنسدان نے تیار کیا ہے اورانہیں امید ہے کہ پیداواری مرحلے پر پہنچنے کے بعد یہ آلہ صرف 150 ڈالرمیں دستیاب ہوسکے گا جو اس سے حاصل ہونے والے بہترین اورقابلِ بھروسہ نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی کم خرچ ہے۔
اگرچہ یہ اسمارٹ فون کی مدد سے کینسرکی تشخیص کرنے کے قابل کوئی پہلا آلہ ہر گز نہیں لیکن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ کم خرچ اور تیز رفتار ہونے کے ساتھ ساتھ 99 فیصد درست نتائج دیتا ہے جو کسی مہنگی میڈیکل لیبارٹری ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کی ایک اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ اس سے ایک وقت میں 8 نمونوں کی جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے۔
اس آلے میں نمونے رکھنے کے لیے ایک حصہ ہے جس میں 96 چھوٹے چھوٹے پیالہ نما خانے ہوتے ہیں جن کے ساتھ منشور (prism) بھی منسلک ہوتے ہیں جب کہ اس کے بالکل پیچھے خاص طرح کی روشنی خارج کرنے والا حصہ موجود ہوتا ہے۔ نمونوں سے گزرنے والی روشنی ان پیالہ نما خانوں سے گزرتے دوران مختلف رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے جو ایک انکساری جالی (diffraction grating) سے گزرتی ہوئی اسمارٹ فون کے کیمرے تک پہنچتی ہے۔
رنگوں میں منقسم اس روشنی کا تجزیہ کرنے کے لیے اسمارٹ فون میں ایک خصوصی ایپ (app) انسٹال کی جاتی ہے جس کا مقصد (نمونوں سے آنے والی روشنی کی بنیاد پر) مخصوص مادّوں کی موجودگی یا عدم موجودگی کا پتا چلانا ہوتا ہے۔ ان میں ’’بایومارکر انٹرلیوکن6‘‘ (IL-6) بھی شامل ہے جس کی قدرے زیادہ مقدار میں موجودگی پھیپھڑوں، پروسٹیٹ، جگر، چھاتی، جلد اور ٹشوز میں سرطان کی اہم علامت سمجھی جاتی ہے۔

 

ایمز ٹی وی (کھیل) مائیکل کلارک نے شین واٹسن نے پرانی دشمنی کو تازہ کرلیا، حالیہ انٹرویو میں سابق آسٹریلوی کپتان نے اعتراف کیا کہ انھوں نے ماضی میں ہم عصر اسٹار بیٹسمین کو ’ کینسر‘ نہیں کہا تھا لیکن انھیں ٹیم کیلیے ’ ٹیومر‘ ضرور کہا تھا، جس کا علاج نہیں کیا جاتا تو یہ بگڑ کر کینسر میں تبدیل ہوجاتا۔

مقامی ٹی وی پر تفصیلی انٹرویو میں کلارک نے ماضی میں اپنے تمام جھگڑوں پر کھل کر بات کی،مائیکل کلارک نے کہا کہ میں نے شین واٹسن کو اس گروپ کا حصہ قرار دیا تھا جو ٹیم کیلیے ’ ٹیومر کی طرح ‘ تھا، تاہم انھوں نے شین واٹسن کو ’ کینسر ‘ کہے جانے سے انکار کیا، یہ بات مکی آرتھر کے کرکٹ آسٹریلیا کیخلاف قانونی ایکشن کے دوران منظرعام پر آئی تھی، شین واٹسن ان چار پلیئرز میں سے ایک تھے جنھیں 2013 کے دورئہ آسٹریلیا میں موہالی ٹیسٹ سے ’ ہوم ورک ‘ معاملے کی وجہ سے ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا، اس وقت کینگروز ٹیم کے کپتان مائیکل کلارک اور کوچ مکی آرتھر تھے، جو سردست پاکستان ٹیم سے وابستہ ہیں۔ کلارک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا بلکہ میرا موقف تھا کہ ٹیم میں چند پلیئرز یا ایسا گروپ موجود ہے جو ٹیومر کی طرح ہے اگر اس کا علاج نہیں کیا گیا تویہ کینسر میں تبدیل ہوسکتا ہے، اس پر میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا شین واٹسن ان میں سے تھے، جس پر کلارک کا جواب ’ ہاں ‘ میں تھا، اس کے علاوہ کلارک نے 2009 میں ایک اور سابق پلیئر سائمن کٹیچ سے اپنے ہونے والے جھگڑے پر بھی بات کی۔

جنھوں نے جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیم کی فتح کے بعد ٹیم کا ترانہ گانے پر اختلاف کرنے پر مائیکل کلارک کا گریبان پکڑلیا تھا، انھوں نے سائمن کیٹچ سے ہونے والی اپنی لڑائی کو بھی پرانے پلیئرز سے تفریق کا نقطہ آغاز قرار دیا، ہمارے درمیان بہت اختلاف تھا، میرے پاس ان سے ناراض ہونے کا جواز تھا لیکن میں نے کیٹچ کے متعلق کوئی بدزبانی نہیں کی تھی، میتھیو ہیڈن کا بھی یہ الوداعی ٹیسٹ تھا، وہ بھی اس معاملے پر مجھ سے ناراض ہوئے تھے،انھوں نے کہا کہ میرے مسائل کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب مجھے کپتان رکی پونٹنگ کا نائب بنایاگیا، انھوں نے مزید کہا کہ میں خود کو اچھا نائب خیال نہیں کرتا، تاہم جب مجھے نائب بنایا گیا تو یہ خود بخود یہ تاثر بن گیا کہ اگلا کپتان مجھے ہی بنایا جائیگا اور یہ تصور بڑھتا چلاگیا۔

  • بڑھاپا روکیں،اور دیرپا جوان رہیں ایمز ٹی وی (صحت) بڑھاپا ایک فطری عمل ہے۔ آپ چاہے اپنی زندگی جیسی بھی گزاریں بڑھاپا اپنے وقت پر ضرور آئے گا۔ بڑھاپے کے ساتھ بے شمار بیماریاں بھی ساتھ آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کو بچپن میں کوئی گہری چوٹ لگی ہے او وہ ٹھیک بھی ہوگئی تب بھی وہ بڑھاپے میں پھر سے تکلیف کا باعث بنے گی۔ ماہرین کے مطابق اگر بچپن ہی سے احتیاط کی جائے اور اپنے جسم کا خیال رکھا جائے تو بڑھاپے میں ہونے والی بیماریوں سے کسی حد تک بچا جاسکتا ہے اور ایک صحت مند بڑھاپا گزارا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کچھ غذائیں ایسی ہیں جنہیں اگر باقاعدگی سے استعمال کیا جائے تو بڑھاپے کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے یعنی آپ تا دیر جوان رہ سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو افراد اپنی روزمرہ کی خوراک میں مچھلی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ دیر تک جوان رہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہفتہ میں 2 سے 3 بار مچھلی کھانا آپ کی عمر کی رفتار میں 42 فیصد کمی کرسکتا ہے۔ سبز چائے صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہے اور یہ شمار فائدوں کا سبب بنتی ہے۔ یہ ذہنی دباؤ کم کرنے، وزن گھٹانے، دماغی کاکردگی میں اضافے کے لیے معاون ہے اور ذیابیطس اور کینسر کے خطرات میں بھی کمی کرسکتی ہے۔ حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق یہ آپ کو زیادہ عرصہ تک جوان رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ زیتون کے تیل میں شامل اینٹی آکسیڈنٹس بڑھاپے کی کئی بیماریوں سے بچاؤ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ جسم میں زائد چربی کو ذخیرہ ہونے سے روکتا ہے اور بعض ماہرین کے مطابق یہ کینسر اور امراض قلب کی شرح میں بھی کمی کرتے ہیں۔مختلف اقسام کی بیریز جیسے بلو بیریز، بلیک بیریز، اسٹرابیریز میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس عمر بڑھنے کی رفتار میں کمی کے ساتھ دماغی کارکردگی میں اضافہ اور پٹھوں کی صحت کو بہتر کرتی ہے۔ 


ایمز ٹی وی (صحت) برگراور فاسٹ فوڈ کے شوقین یہ جان لیں کہ ان کی اس عادت سے خون کے خلیات بگڑ سکتے ہیں اور ان میں کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔
برطانیہ کی سوانسیا یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ تازہ پھلوں، سبزیوں اور کھانوں میں اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے ۔ دوسری جانب فاسٹ فوڈز میں یہ اجزا نہیں ہوتے اور ان کی کمی جسم اور خون کے خلیات کو متاثر کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ جنک فوڈ خون کے خلیات کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ خون کے خلیات ( سیلز) ہی پھیپھڑوں کی آکسیجن جسم میں ہر مقام تک پہنچاتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق خون کی خلیات کی صحت جسم کی اہم خبرنامہ ہوتی ہے۔
سوانسیا یونیورسٹی میں آنتوں اور ہاضمے کے ماہرین اور کینسر پر کام کرنے والے سائنسداں کہتے ہیں کہ خون کے خلیات خراب خوراک کی فوری نشاندہی کرسکتے ہیں چونکہ یہ خلیات ہڈیوں کے گودے میں پیدا ہوتے ہیں اسی لیے خراب غذا انہیں متاثر کرتی ہے۔ ایک صحتمند شخص کے جسم میں بھی 10 لاکھ خلیات میں سے 3 سے 5 خلیات تبدیل شدہ یا متاثرہ ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ پھل اور سبزیاں نہیں کھاتے ان میں یہ تبدیلی دُگنی ہوسکتی ہے۔ اس طرح آگے چل کر یہ کینسر سمیت کئی امراض کی وجہ بن سکتے ہیں۔

ایمزٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا بھر میں دل کے امراض اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں جو تمام اقسام کے کینسر سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ ہے۔ لیکن دل کے دورے کو فوری طور پر شناخت کرنا اب تک ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ لیکن ہارٹ اٹیک کی صورت میں خون کے اندر کئی خاص کیمیکل شامل ہوجاتے ہیں جن کی شناخت سے اس جان لیوا دورے کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔

مانچسٹر اسکول آف مٹیریلز کے سائنسدان نے بھارت میں انسٹی ٹیوٹ آف نینو سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ( آئی این ایس ٹی) کے تعاون کے بعد نینوپیمانے پر تیار کردہ ایک سینسر بنایا ہے جو سیاہ فاسفورس پر مشتمل ہے اور اس پر ڈی این اے کی پرت چڑھائی گئی ہے۔ دل کے دورے کی صورت میں ایک کیمیکل مایوگلوبن خارج ہوتا ہے جو ڈی این اے میں آکر پھنس جاتا ہے اور اس کی شناخت ہوجاتی ہے۔

یہ سینسر دل کے دورے کی پیمائش کا حساس، تیز اور درست طریقہ ہے۔ ماہرین کے مطابق سینسر میں آنے والی مایوگلوبن کی مقدار سے دورے کی شدت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سینسر کو عام کلینک میں فراہم کرکے وہاں پہنچنے والے لوگوں میں دل کی کیفیت معلوم کرکے بڑی تعداد میں جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

سائنسدان کا کہنا ہےکہ یہ سینسر ایک انقلابی اہمیت اختیار کرجائے گا اور اس سے لوگوں کو جان لیوا دل کے دورے کے بعد بچانا ممکن ہوگا کیونکہ شناخت کے بعد علاج آسان ہوجاتا ہے۔

ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)ایک انسانی ہڈی کے رکازات (فوسلز) کے تفصیلی مشاہدے سے انکشاف ہوا ہے کہ انسانوں میں کینسر کا مرض آج سے 17 لاکھ سال پہلے بھی موجود تھا۔ یہ دریافت جنوبی افریقا میں وٹواٹرزرینڈ یونیورسٹی اور ساؤتھ افریکن سینٹر فار ایکسی لینس اِن پیلیو سائنسز کے ماہرین نے مشترکہ طور پر کی ہے۔ تجزیئے میں انکشاف ہوا ہے کہ جس شخص کی یہ ہڈی ہے وہ آج سے تقریباً 17 لاکھ سال پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا اور وہ ہڈیوں کے خطرناک سرطان ’’اوسٹیوسارکوما‘‘ میں مبتلا تھا۔ قرینِ قیاس ہے کہ اس کی موت بھی ہڈیوں کے کینسر ہی سے ہوئی تھی۔

اب تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سرطان (کینسر) جدید دور کی بیماری ہے جو انسانی رہن سہن میں مضرِ صحت تبدیلیوں کے باعث حالیہ چند صدیوں کے دوران ہی ظہور پذیر ہوئی ہے۔ لیکن اس دریافت نے سرطان کے بارے میں ہمارے خیالات یکسر بدل دیئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرطان ایک ایسی بیماری ہے جو لاکھوں سال سے انسان کے ساتھ ہے اور انسان کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر بھی ہوئی ہے۔

یہ دریافت اس لحاظ سے بھی غیرمعمولی ہے کیونکہ اس سے پہلے تک ملنے والی قدیم ترین انسانی رسولیاں بھی ایک لاکھ 20 ہزار سال قدیم ہیں جب کہ وہ کینسرسے متاثر بھی نہیں تھیں۔ مصری ممیوں کے مطالعے میں بھی ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جو فراعنہ میں کینسر کی طرف اشارہ کرتے ہوں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سرطان کا لاکھوں سال قدیم ہونا اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت بہرحال نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ جدید طرزِ زندگی نے اس بیماری کے خطرناک پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)مریضوں کو آرام پہنچانے والی دواؤں کو خود مہنگائی کے مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ستر ہزار دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے بیماری کے ستائے مریضوں کو ایک اور جھٹکا دے دیا۔ مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی ستر ہزار دوائیں مہنگی کردیں۔

ہیپاٹائٹس، دل کے امراض،شوگر، ٹی بی، کینسر اور گردے کے امراض کی دواؤں کی قیمتوں میں ایک اعشاریہ تینتالیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اینٹی بائیوٹک، ان ہیلر اور ٹیکے بھی اتنے ہی مہنگے ہوگئے ہیں۔

ملٹی وٹامن، درد اور مرگی کی دوائیں دو فیصد مہنگی کردی گئیں۔ کم قیمت والی دوائیں بھی اب کم قیمت نہیں رہیں گی۔ان کے نرخوں میں بھی دو اعشاریہ چھیاسی فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کواضافے کے لیے پندرہ روز قبل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کواطلاع دینا ہوگی۔

ایمزٹی وی(صحت)کینسرپرتحقیق کرنے والے برطانوی ادارے ’’کینسر ریسرچ یوکے‘‘ نے دریافت کیا ہے کہ ملیریا کا علاج کرنے والی ایک پرانی دوا سے سرطان کے علاج میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ ایڈوواکیون ایک کم خرچ دوا ہے جو آج بھی ملیریا سے بچاؤ اور علاج دونوں میں استعمال ہورہی ہے۔ چوہوں پر کی گئی اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ملیریا کی اس پرانی دوا ’’ایٹوواکیون‘‘ سے چوہوں میں سرطان زدہ خلیات کے اندر آکسیجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی بدولت ان پر ریڈیو تھراپی کے بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ کینسر کی ان اقسام میں پھیپھڑوں، معدے، دماغ، سر اور گردن کا سرطان شامل ہیں۔

ریڈیو تھراپی میں کم آکسیجن والے سرطان زدہ خلیات کا علاج خاصا مشکل ہوتا ہے اور ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ کہیں وہ اپنے ابتدائی مقام سے فرار ہوکر کسی اور جسمانی عضو میں پہنچ کر اسے بھی سرطان کا شکار نہ بنادیں۔ ایسے میں تابکار لہروں کی زائد مقدار بھی مریض کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

ایمزٹی وی(صحت)نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ذہنی تناؤ والے افراد میں کینسر پھیلنے کی رفتار غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہے. تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا کے موناش انسٹی ٹیوٹ آف فارماسیوٹیکل سائنسز میں کینسر پر کام کرنے والی خاتون پروفیسر کا کہنا ہےکہ تناؤ کی وجہ سے جسم میں کینسر پھیلنے کی شاہراہیں بن جاتی ہیں،تناؤ رسولی کے لیے باقاعدہ طبعی راستے بناتی ہے جن کے ذریعے کینسر کے سیلز اور رسولی کو پھیلنے کا بھرپور موقع ملتا ہے.

ماہرین نے بریسٹ کینسر میں مبتلا چوہیوں پر خاص تجربات کیے اور ان جانوروں پر کام کرنے والی خاتون پروفیسر کے مطابق تناؤ والی چوہیوں میں عام چوہیوں کے مقابلے میں کینسر چھ گنا زائد تیزی سے پھیلا.

پروفیسر کاکہنا ہےکہ کینسر کے علاج میں جراحی اور کیموتھراپی سے مریض ذہنی اور جسمانی طور پر شدید متاثر ہوتا ہے.

دیگر ماہرین کے مطابق بی ٹا بلاکر دوا پروپیرانولول کے استعمال سے تناؤ کو کم کرکے کینسر کے علاج کو مؤثر اور تیز کیا جاسکتا ہے اور اب اس کی آزمائش کی جارہی ہے.

واضح رہے کہ آسٹریلوی ماہرین کے مطابق تناؤ والے افراد میں کینسر کی رسولیاں زیادہ تیزی سے بڑھتی ہیں.

ایمزٹی وی(صحت)سوئیڈن میں ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ سافٹ ڈرنکس اور فروٹ جوسز کا زیادہ استعمال کینسر جیسے جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھا دیتا ہے.

تفصیلات کے مطابق سوئیڈن کےکیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوڈے اور جوسز کے استعمال کے نتیجے میں مثانے اور پتے کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ موٹاپا اور بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ بنتی ہے.

تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ 2 جوس یا کوڈ ڈرنکس استعمال کرتے ہیں ان میں اس کینسر کا خطرہ ان مشروبات سے دور رہنے والے افراد کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے،کولڈ ڈرنکس کے شوقین افراد میں جگر کے کینسر کا امکان 79 فیصد تک بڑھ جاتا ہے.

محققین نے ان مشروبات اور کینسر کے درمیان تعلق کو تلاش کرنے کے لیے 70 ہزار بالغ افراد کی غذائی عادات کا تیرہ سال تک جائزہ لیا،تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ روزانہ دو یا اس سے زائد کولڈ ڈرنکس یا میٹھے مشروبات کا استعمال کرتے ہیں،ان میں کینسر جیسے جان لیوا مرض کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے.

محققین کے مطابق سوڈا کا استعمال اس سے پہلے بھی کینسر کا باعث ثابت ہوچکا ہے تاہم موجودہ تحقیق صرف تجزیے کی حد تک تھی اس لیے ابھی ہم ان مشروبات کو براہ راست اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے.

واضح رہے کہ یہ تحقیق طبی جریدے جنرل آف دی نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ میں شائع ہوئی ہے.

Page 5 of 7